کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 660
(جامعہ بنوریہ) کے ترجمان ماہنامہ ’’بینات‘‘ اکتوبر ۲۰۰۸ء میں جناب عباس نذیر صاحب کے ضبط وترتیب سے شائع کیا گیا۔ دورانِ درس میں جناب ایک جدید اور انوکھا اصول متعارف کرواتے ہوئے طلباء کو فرماتے ہیں: ’’اگر کسی مسئلے کے لیے دلیل کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ایسے شخص کے سامنے پیش کی گئی جو شخص اپنے زمانے میں اَعلم، اَتقی، اَزہد اور اَروع ہو۔ زہد، تقویٰ، علم اور اس کے ساتھ ساتھ فراستِ ایمانی کے اندر اپنے ہم عصروں سے ممتاز ہے۔ پھر اگر اس کا زمانہ، زمانۂ نبوت سے قریب ہے، مشہود لہا بالخیر جو ازمنہ ہیں، ان ازمنہ کے اندر اللہ نے اس کو وجود بخشا ہے اگر اس کے استنباط کردہ کسی مسئلے کے مقابلے میں کوئی نص ہے یا اس کے سامنے کسی نص کو پیش کیا جاتا ہے اور وہ معارضہ اس نص کا نص سے نہیں کرتا بلکہ اپنی رائے پیش کرتا ہے تو اس کی رائے بھی حجت ہے اگرچہ وہ معارضۃ النص بالنص نہیں کررہا۔ یعنی دلیل کا جواب دلیل کی بجائے اپنی رائے سے دیتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ بینات، ص:۳۱، اکتوبر ۲۰۰۸ء) گویا ان کے نزدیک جو انسان اَعلم واَتقی ہو اور اس کی دینی فراست بھی مسلم ہو، اپنے زمانے میں اس کا ایک خاص مقام ہو اگر وہ کوئی ایسا مسئلہ بیان کرے جس کے خلاف کوئی صحیح دلیل موجود ہے اور وہ اس دلیل سے کسی قسم کا تعرض نہ کرے تو محض اس کی رائے ہی ’’حجت‘‘ ہوگی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے مستنبط کردہ مسئلے کے خلاف کوئی دلیل پیش کی جاتی ہے یا اسے یاد دلائی جاتی ہے تو وہ اس دلیل کا معارضہ اپنے ہاں موجود دلیل سے نہیں کرتا بلکہ اس کے مقابلے میں محض اپنی رائے دیتا ہے تو ایسی رائے