کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 657
کہ ان کی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تورک تین یا چار رکعتوں والی نمازوں کے دوسرے تشہد میں ہوگا۔
اس لیے امام ابن القیم رحمہ اللہ اور دیگر محدثین کی اس تصریح کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ امام شافعی کا یہ موقف قابلِ غور ہے اور حدیث کے صحیح معنی بھی وہی ہیں جو امام ابن القیم، مولانا رحمانی اور شیخ البانی رحمہم اللہ وغیرہ نے سمجھے ہیں۔
تنبیہ: مسند الفاروق لابن کثیر (۱/ ۱۶۶) میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت سے مطلقاً سلام والے تشہد میں تورک کا اثبات بھی محلِ نظر ہے، کیونکہ عبداللہ بن القاسم مولی ابی بکر الصدیق مجہول راوی ہے۔ جسے حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات (۵/ ۴۶) میں ذکر کیا ہے، یہ قاعدہ معروف ہے کہ حافظ صاحب ایسے مجاہیل کو کتاب الثقات میں ذکر کر دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث مولیٰ ابی بکر کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
خلاصہ:
راجح موقف یہ ہے کہ تورک ہر اس نماز کے دوسرے تشہد میں ہوگا جس میں دو تشہد ہوں گے، لہٰذا ایک تشہد والی نماز میں افتراش ہوگا۔
یہی موقف امام احمد بن حنبل اور حنابلہ کے علاوہ امام ابن القیم، علامہ البانی، مولانا عبیداللہ رحمانی، شیخ ابن باز (فتاوی: ۷/ ۱۷)، شیخ محمد بن صالح عثیمین (فتاوی ارکانِ اسلام، ص: ۲۸۵ طبع دارالسلام)، مولانا امین اللہ پشاوری (فتاوی الدین الخالص: ۴/ ۳۴۰)، ابو مالک کمال بن السید سالم (صحیح فقہ السنۃ: ۱/ ۳۴۷) وغیرہ کا ہے۔ بلکہ شیخ ابو عبیدہ مشہور بن حسن نے فجر، جمعہ اور نفلی نماز میں تورک کو غلط قرار دیا ہے۔ (القول المبین في أخطأ المصلین، ص: ۱۶۰)