کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 655
الیسری، ونصب الأخری، وقعد علی مقعدتہ)) (بخاري: ۸۲۸)
خلاصۂ حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تشہد میں افتراش کیا اور دوسرے میں تورک کیا اور یہاں دوسرے تشہد سے مراد چوتھی رکعت والا یعنی دوسرا تشہد ہے اور دوسرے تشہد میں تورک کے مشروع ہونے میں ان دونوں ائمہ کا کوئی اختلاف نہیں۔
رہا امام شافعی رحمہ اللہ کا ابو داود کی سلام والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے یہ فرمانا کہ ہر سلام والے تشہد میں تورک کیا جائے گا، محلِ نظر ہے، کیونکہ اس میں سلام والے تشہد سے مراد بھی دوسرا تشہد یعنی چوتھی رکعت ہے، جیسا کہ دوسری جگہ اس کی صراحت موجود ہے، بلکہ سنن أبي داود (۷۳۱) میں حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں:
((فإذا کان في الرابعۃ أفضی بورکہ الیسری إلی الأرض۔۔۔))
کہ آپ چوتھی رکعت میں تورک کرتے۔
اسی طرح کتاب الأم (۱/ ۱۰۱) اور مسند الشافعی (ص: ۹۵، رقم: ۷۷۲) میں ’’فإذا جلس في الأربع‘‘ کی بھی صراحت موجود ہے اور الأحادیث یفسر بعضھا بعضا کے قاعدہ کی رو سے یہاں ’’التسلیم‘‘ سے مراد چوتھی رکعت ہے اور یہی دلیل امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر حنابلہ کی ہے کہ اُس نماز کے دوسرے تشہد میں تورک کیا جائے گا، جس میں دو تشہد ہوں گے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کے اس موقف کے کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے رواۃِ حدیث نے حدیث کو مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے پہلے تشہد کا تذکرہ چھوڑ دیا اور دوسرے تشہد کو سلام والے تشہد سے تعبیر کر دیا، جس سے امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ سمجھے کہ ہر سلام والے تشہد میں تورک ہوگا، حالانکہ ایسا نہیں۔