کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 65
’’وإذا کثرت الروایات في الحدیث ظھر أن للحدیث أصلاً‘‘(المستدرک: ۲/ ۴۲۶) ’’جب کسی بابت بہت سی احادیث وارد ہوں تو اس حدیث کی اصل ظاہر ہوتی ہے۔‘‘ 3۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ولا یخلو إسناد کل منھا عن مقال، لکن مجموعھا یقتضی أن للحدیث أصلاً‘‘ (فتح الباري: ۵/ ۳۷۲) ’’اس کی کوئی سند بھی تنقید سے مبرا نہیں، لیکن اس کا مجموعہ اس کی اصل کا متقاضی ہے۔‘‘ 4۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ھذان الإسنادان وإن کانا ضعیفین فأحدھما یتأکد بالآخر، ویدلک علی أن لہ أصلاً من حدیث جعفر‘‘(دلائل النبوۃ: ۷/ ۲۶۹) ’’یہ دونوں سندیں اگرچہ ضعیف ہیں مگر ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔ اور آپ کی راہنمائی کرتی ہیں کہ اس حدیث کی جعفر سے اصل ہے۔‘‘ 3. شواہد یا متابعات کی بنا پر حسن: 1۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اسحاق بن عبداللہ سے حجت نہیں پکڑی جائے گی، مگر اس کے شواہد اسے تقویت دیتے ہیں۔‘‘ (السنن الکبری: ۶/ ۲۲۰) ’’یہ محمد بن عبد العزیز غیر قوی ہے اور وہ اپنے سابقہ شواہد کی بنا پر مضبوط ہوتا ہے۔‘‘ (سنن البیہقي: ۳/ ۳۴۸)