کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 649
سے ہے۔ اور اس کی حقیقت آپ ملاحظہ کرچکے ہیں۔ بلکہ درج ذیل حافظ ذہبی کے کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس قول کو تعدیل قرار دے رہے ہیں، فرماتے ہیں:
’’وقد ضعف، قال أبو الحسن: ما تبین من أمرہ إلا خیر‘‘
(ذکر من یعتمد قولہ في الجرح والتعدیل للذہبي، ص: ۱۸۹، رقم: ۴۲۷۔ ضمن: أربع رسائل في علوم الحدیث، تحقیق: أبي غدۃ عبدالفتاح)
’’یقینا ان کو ضعیف کہا گیا ہے (امام) ابوالحسن دارقطنی فرماتے ہیں: اس کے معاملے میں خیر ہی واضح ہوئی ہے۔‘‘
بلکہ اس سے بھی ذرا آگے دیکھیے کہ مطبعۃ السعادۃ، مصر سے ۱۳۵۲ھ کو تین جلدوں میں محمد بدر الدین الغسانی کی تحقیق سے میزان الاعتدال مطبوع ہوئی، اس میں بھی یہ قول حافظ دولابی کی عدالت پر مبنی ہے۔(میزان الاعتدال، ۳/ ۱۷، ترجمۃ: ۱۴۶)
رہی کتاب لسان المیزان، تو حال ہی میں دارالبشائر الاسلامیہ، بیروت لبنان، نے دکتور عبدالفتاح ابوغدہ کی تحقیق سے تین ضخیم جلدوں (نوحصوں) میں شائع کی ہے، یہ نسخہ پچھلے تمام مطبوعہ نسخوں سے مجموعی اعتبار سے سب سے اچھا ہے۔ محقق نے پانچ مخطوطات سے اس نسخے کی تحقیق کی ہے۔ قابلِ مسرت بات یہ ہے کہ اس کی تحقیق میں جس نسخے کو اصل قرار دیا گیا ہے وہ امام ربانی حافظ ابن حجر عسقلانی کی حیاتِ طیبہ میں ان کے ایک شاگرد ابوالفضل تقی الدین عبدالرحمن بن احمد القلقشندی القاہری متوفی ۸۷۱ھ نے ۸۴۵ھ تا ۸۴۸ھ میں لکھا۔ حافظ ابن حجر پر اس نسخے کی دو مرتبہ قراء ت کی گئی۔ کیونکہ حافظ صاحب نے اس نسخے کے آخر میں قراء ت کا اثبات بھی کیا ہے۔ (مقدمہ لسان المیزان: ۱/ ۱۲۵۔ ۱۳۵)