کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 648
۶۴۳ھ کے قلم سے لکھا ہوا حاشیہ ہے۔
جبکہ اس کا دوسرا مخطوطہ مکتبہ سرای السلطان احمد الثالث، ترکی (مجموعہ نمبر: ۶۲۴/ ۱۲، ورقہ نمبر: ۱۷۲/ ب تا ۱۸۹/ ب) میں موجود ہے۔ اس کے ناسخ ابوبکر بن علی بن اسماعیل انصاری نے اسے ۷۲۸ھ میں لکھا۔ تاریخ التراث العربی للدکتور فؤاد سزگین میں ۶۲۸ھ غلط ہے۔ (تاریخ التراث، ج:۱، ص:۴۲۴، رقم:۲۷) اس نسخے کی چند امتیازی خصوصیات ہیں جس کی بنا پر محقق نے سوالات کی تحقیق میں اسے اصل قرار دیا ہے۔ اور وہ یہ ہیں کہ یہ تصحیح شدہ مکمل نسخہ ہے۔ مصنف حافظ دارقطنی تک اس نسخے کی سند متصل ہے۔ جیسا کہ محقق سوالات نے مقدمۂ کتاب (ص:۶۱،۶۲) میں اس کی توضیح کی ہے۔
ان دونوں مخطوطات میں امام دارقطنی کا قول تعدیل پر مشتمل ہے۔ اس لیے المیزان اور اللسان میں اس قول کا جرح پر مبنی ہونا غیر صحیح ہے کیوں کہ حافظ ذہبی کی پیدائش ۶۷۳ھ سے ایک عرصہ پہلے حافظ مقدسی متوفی ۶۴۳ھ نے سوالات پر اپنے ہاتھ سے حاشیہ لکھا، اور انھوں نے حافظ صاحب کے اس قول سے کوئی تعرض نہ کیا گویا انھوں نے حافظ صاحب کے قول کو تعدیل میں ہی قرار دیا۔
ثانیاً: حافظ ابن عساکر نے صاحبِ سؤالات حمزۃ بن یوسف السہمی کی سند سے جو قول نقل کیا ہے وہ تعدیل پر مشتمل ہے۔
(تاریح دمشق: ۱۴/ ۶۷۸۔ مخطوط۔ و ۵۱/ ۳۱۔ مطبوع)
حافظ ذہبی کی دوسری کتب میں یہ عبارت تعدیل سے ہی عبارت ہے۔ (سیر أعلام النبلاء، ج:۱۴، ص:۳۱۰) وتذکرۃ الحفاظ (ج:۲، ص:۷۶۰) وتاریخ الإسلام: حوادث ووفیات (۳۰۱۔ ۳۲۰ ھ، ص:۲۷۶) ان تینوں مقامات پر حافظ دارقطنی کا قول امام حمزۃ السہمی کی روایت