کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 632
لہٰذا اس سند میں شریک کا واسطہ ذکر کرنا اور ’’من أمر الجاھلیۃ‘‘ کے الفاظ بیان کرنا، ہشیم کے علاوہ کسی اور راوی کی غلطی ہے۔ ان وجوہ اربعہ سے معلوم ہوا کہ امام احمد کا نقد اس مخصوص سند اور متن پر ہے، مسند احمد اور سنن ابن ماجہ وغیرہ کی روایت اس سے قدرے مختلف ہے اور وہ ان کا ہدف قطعاً نہیں۔ ہماری اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسماعیل بن ابی خالد کی معنعن روایت میں تدلیس نہیں ہے، جس بنا پر وہ صحیح ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ موصوف قلیل التدلیس ہے اور قیس کا خاص شاگرد ہے، ان تینوں قرائن کی بنا پر اس کی بیان کردہ روایت مقبول ہے۔ یہی محدثین کا فیصلہ ہے۔