کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 631
مگر مجھے امام احمد کی کتاب ’’العلل روایۃ المروذي‘‘ میں تلاش کے بعد یہ روایت تو کُجا بلکہ اس جانب امام صاحب کا ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں ملا۔ واللّٰه أعلم ثانیاً: ہشیم سے اس روایت کو بیان کرنے والے تین راوی ہیں جن میں امام سعید بن منصور (ثقۃ مصنف۔ التقریب: ۲۶۴۵) امام احمد بن منیع (ثقۃ حافظ، التقریب: ۱۲۸) اور شجاع بن مخلد ابو الفضل (صدوق، التقریب: ۳۰۴۲، قلت: بل ھو ثقۃ مطلقاً) ہیں۔ مگر ان راویان میں سے کوئی بھی اس سند میں شریک کا واسطہ ذکر نہیں کرتا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہشیم کے جس شاگرد نے شریک کا واسطہ ذکر کیا ہے اسے وہم لاحق ہوا ہے، جس بنا پر امام صاحب نے اسے بے اصل قرار دیا ہے۔ اگر اس سند میں شریک کے واسطے کو المزید فی متصل الاسانید کے باب سے بھی قرار دیا جائے تو تب بھی اس کا متن نکارت کی وجہ سے غیر معتبر ہوگا، لہٰذا جماعت کی روایت کا اعتبار ہوگا اور وہ شریک کا واسطہ ذکر کرتی ہے نہ ’’من أمر الجاھلیۃ‘‘ کے الفاظ بیان کرتی ہے۔ ثالثاً: امام ابو داود کا یہ فرمان: ’’ان کا خیال ہے کہ اس حدیث کو ہشیم نے شریک سے سنا ہے‘‘ غمازی ہے کہ ’’من النیاحۃ‘‘ کے بجائے ’’من أمر الجاھلیۃ‘‘ کے الفاظ بیان کرنا شریک کی غلطی ہے۔ کیونکہ موصوف یخطیٔ کثیراً کی جرح سے بھی مجروح ہے۔ (التقریب: ۲۸۰۲) رابعاً: مسند أحمد (۲/ ۲۰۴) میں نصر بن باب اور المعجم الکبیر للطبراني (۲/ ۳۰۷) میں عباد بن العوام (ثقۃ۔ التقریب: ۳۴۷۴) ہشیم کے متابع موجود ہیں، مگرنصر بن باب انتہائی سخت ضعیف راوی ہے۔(تعجیل المنفعۃ: ۲/ ۳۰۵)