کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 63
ہے، کیونکہ اس میں مقبول ہونے کی اعلیٰ صفات پائی جائیں گی یا نہیں، پہلی قسم صحیح لذاتہ ہے۔ دوسری قسم میں اگر نقص پورا کرنے کے لیے کوئی چیز، مثلاً متعدد اسانید موجود ہوں تو وہ بھی اسی طرح صحیح ہے، مگر صحیح لذاتہ نہیں، (بلکہ صحیح لغیرہ ہے)۔ اور جہاں نقص پورا نہ کیا جائے وہ حسن لذاتہ ہے۔ اگر کوئی قرینہ کسی حدیث کی درستی کو ترجیح دے تو وہ بھی حسن ہے، مگر حسن لذاتہ نہیں، بلکہ حسن لغیرہ ہے۔‘‘ نزھۃ النظر (ص: ۳۰۔ ۳۱) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے تلمیذ حافظ سخاوی رحمہ اللہ ۹۰۲ھ فرماتے ہیں: (3). ’’حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر صراحت کی ہے کہ ایسا ضعیف راوی جس کے ضعف کا سبب سوءِحفظ ہو، جب ایسی حدیث کی متعدد سندیں ہوں تو وہ حسن (لغیرہ) کے مرتبہ تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘فتح المغیث (۱/ ۸۰ ۔۸۱) و توجیہ النظر للجزائري (ص: ۲۱۸) بعد ازاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ قول ان کی کتاب سے مل گیا۔الإمتاع بالأربعین المتباینۃ بشرط السماع (ص: ۲۹۹) حافظ ابن الصلاح، حافظ ابن حجر رحمہما اللہ وغیرہما کی آرا سے معلوم ہوا کہ کسی ضعیف حدیث کی جب متعدد سندیں ہوں یا اس کا ضعیف شاہد ہو اور ان سے تقویت کے حصول کا بھی غالب امکان ہو تو وہ حسن لغیرہ قرار پائے گی۔ متقدمین اور متأخرین محدثین نے اس کا اعتبار کیا ہے۔ حسن لغیرہ کے حوالے سے محدثین کے مزید اقوال آئندہ آئیں گے۔ إن شاء اللہ۔ اب ہم اس کی ذیلی بحوث کی طرف چلتے ہیں۔