کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 623
کریں) تو میں آپ کو خبردار کر دیتا۔ (العلل و معرفۃ الرجال: ۳/ ۹۰، فقرہ: ۴۳۲۰)
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے بھی امام یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ جو آپ اسماعیل عن عامر سے بیان کرتے ہیں وہ صحیح ہیں؟ جواب دیا: ہاں!(الجرح والتعدیل: ۲/ ۱۷۵ ۔سندہ صحیح۔)
امام ابن القطان کے ان تینوں اقوال کو سامنے رکھنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ اسماعیل نے شعبی سے روایت کرتے ہوئے کن کن حدیثوں میں تدلیس کی ہے، پھر تدلیس شدہ روایات کی صراحت کر دی، جیسا کہ دو حدیثوں کا حوالہ ابھی گزر چکا ہے اور جن مرویات میں تدلیس نہیں ہے ان میں ابن ابی خالد کا عنعنہ قبول بھی کیا ہے، جیسا کہ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کے استفسار میں فرمایا۔ اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ کو فرمایا کہ ابن ابی خالد اگر تدلیس کرتے تو میں ضرور اس کی اطلاع آپ کو دے دیتا، یعنی اسماعیل، شعبی سے روایت کرتے ہوئے، سبھی معنعن روایات میں تدلیس نہیں کرتے، اگر تدلیس ہے تو وہ بھی انتہائی تھوڑی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
سوال یہ ہے کہ اسماعیل کا کسی اور استاذ سے تدلیس کرنا ثابت ہے؟ بالخصوص قیس بن ابی حازم سے؟ اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ اسماعیل کسی اور شیخ سے تدلیس نہیں کرتے، صرف چند احادیث میں شعبی سے تدلیس کرتے ہیں، لہٰذا شعبی کے علاوہ باقی شیوخ سے معنعن روایت مقبول ہوگی، الّا یہ کہ اس میں کوئی نکارت پائی جائے۔
تیسرا جواب: محدثین کا عنعنہ قبول کرنا:
متعدد محدثین نے اسماعیل بن ابی خالد کے بدونِ تدلیس عنعنہ کو قبول کیا ہے۔ ذیل میں ان کے اسماء درج ہیں۔