کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 62
سے تقویت حاصل کرے، یا پھر وہ اپنے شاہد (کسی دوسرے صحابی کی حدیث) سے تقویت حاصل کرے۔ اس تعریف سے شاذ اور منکر خارج ہوجائیں گے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کا قول اسی تقسیم پر صادق آتا ہے۔‘‘ (معرفۃ أنواع علم الحدیث،ص: ۲۷۔۲۸ ملخصاً)
انھوں نے مذکورہ بالا تعریف اور اس کے ما بعد ذکر کردہ دوسری قسم کا کوئی نام تجویز نہیں کیا، تاہم حافظ سخاوی ۹۰۲ھ نے مذکورہ بالا صورت کو حسن لغیرہ اور دوسری قسم کو حسن لذاتہ قرار دیا ہے۔ (فتح المغیث: ۱/ ۷۷)
حافظ ابن حجر کے نزدیک حجیت:
موصوف رقمطراز ہیں:
(1). ’’جب سوءِحفظ راوی کی معتبر متابعت موجود ہو، وہ متابع (ضعف میں) اس کے برابر ہو یا ضعف میں کم ہو، زیادہ نہ ہو۔ یہی حکم مختلط، مستور راوی اور مرسل سند کا ہے، اسی طرح مدلس کی معنعن روایت کا حکم ہے۔ ایسے راویان کی حدیث حسن لذاتہ نہ ہوگی، بلکہ مجموعی سندوں کے اعتبار سے حسن لغیرہ ہوگی۔‘‘ نزھۃ النظر (ص: ۹۱، ۹۲ ۔ملخصاً)
نخبۃ الفکر کی شرح میں علامہ عبدالرؤف مناوی ۱۰۳۱ھ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تائید کی ہے اور جلی حروف میں ’’الحسن لغیرہ‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔
الیواقیت والدرر في شرح نخبۃ الفکر (۲/ ۱۶۸)
(2). دوسرے مقام پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے منطقی انداز میں مقبول حدیث کی چار قسمیں ذکر کی ہیں:
’’جس حدیث کا راوی عادل، تام الضبط ہو۔ سند متصل ہو۔ معلول اور شاذ نہ ہو وہ صحیح لذاتہ ہے۔ یہ مقبول کی چار اقسام میں سے پہلی قسم