کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 61
زمانۂ تابعین میں مرسلِ تابعی کبیر اور مرسلِ تابعی صغیر کے بارے میں تفریق کا مرحلہ درپیش ہوا۔ مرسل، معلق، معضل حدیث کا معاملہ سامنے آیا۔ إجازتاً، کتابتاً، مناولتاً جیسے تحملِ حدیث کے مسائل پر بحث کی گئی۔ صحاح، سنن، مسانید، مصنفات، مستدرکات، مستخرجات، اجزائے حدیثیہ، الأمالی، زوائد الحدیث پر مشتمل کتب زیورِ طبع سے آراستہ ہوئیں۔ حاصل یہ کہ اس علم میں بھی بالیدگی ہونے لگی۔ جس کا دوسرا مرحلہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ شہرزوری ۶۴۳ھ سے شروع ہوا۔ انھوں نے متقدمین کی کتبِ احادیث، علل الأحادیث، الجرح والتعدیل، مصطلح الحدیث سے نتائج اخذ کیے اور انھیں مزید منقح کر کے نئے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتاب ’’معرفۃ أنواع علم الحدیث (مقدمۃ ابن الصلاح) ‘‘ کو خاصی پزیرائی ہوئی، اور درجنوں اس کی شروحات، مختصرات، النکات معرضِ وجود میں آئیں۔ جزاھماللّٰه خیراً
چنانچہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ متقدمین کی کتب سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:
حافظ ابن الصلاح کے نزدیک حسن لغیرہ کی حجیت:
وہ فرماتے ہیں:
’’جس حدیث کی سند کا راوی مستور (جن کی قابلیت پایۂ ثبوت کو نہ پہنچتی) ہو، اپنی روایت سے بے خبر اور اس میں بہ کثرت اغلاط کرنے والا نہ ہو، اس پر حدیث میں جھوٹ بولنے کا الزام نہ ہو، یعنی اس سے جان بوجھ کر جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو اور نہ اس میں کوئی اور درجۂ فسق ہو، باوجود کہ متنِ حدیث معروف ہو، وہی الفاظِ حدیث یا اس کے معنی کسی دوسری سند یا کئی اسانید سے مروی ہو، یہاں تک وہ اس متابعت