کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 60
ان کے نزدیک حسن کا کوئی خاص ضابطہ نہ تھا۔ کبھی وہ حسن بول کر متأخرین کی اصطلاح کے مطابق درج ذیل احادیث مراد لیتے:
1.صحیح لذاتہ۔2. حسن لذاتہ۔3. صحیح لغیرہ۔ 4. حسن لغیرہ۔5. جس حدیث میں ضعف کا احتمال ہوتا۔ یعنی قابلِ حجت روایت مراد لیتے۔
حسن لغیرہ اور اس پانچویں صورت میں دقیق فرق یہ ہے کہ اس پانچویں قسم سے مراد وہ حدیث ہے جس کی ایک سند ہو۔
کبھی وہ حسن کا اطلاق درج ذیل صورتوں پر کرتے ہیں:
1. غریب حدیث۔2. منکر روایت۔3. جس حدیث کی سند یا متن میں کوئی فائدہ ہو۔ 4. عالی سند۔5. خوبصورت متن۔6. لغوی معنی۔
بلاشبہ ان چھ انواع سے مراد حجت نہیں ہے۔
ایسے جلیل القدر محدثین کو متأخرین کی طرح ان اصطلاحات کی چنداں ضرورت نہ تھی، کیونکہ ان کا فَرامینِ نبویہ سے انتہائی گہرا اور قلبی رشتہ استوار تھا۔ حدیث سے ان کی وہی نسبت تھی جو سونے کی سونار سے ہوتی ہے۔ بنا بریں وہ ضعیف مرویات سے صحیح احادیث چھانٹ لیتے۔ ضعیف راویان کی محفوظ روایات کی پہچان کر لیتے۔ تلامذہ کی اپنے شیوخ سے مرویات اور ان کی تعداد سے باخبر تھے۔ محفوظ، شاذ اور معلول روایات بخوبی جانتے تھے۔ احادیث پر غرابت اور راویان پر تفرد کا حکم لگانا انھی کا وتیرہ تھا۔ احادیث اور علل کارواں انسائیکلو پیڈیا اور علل الحدیث میں مہارتِ تامہ ان کے اوصاف تھے۔
مرورِ زمانہ کے ساتھ دیگر علوم و فنون کی مانند مصطلح الحدیث بھی اپنی ارتقائی منازل طے کرتی گئی اور اس میں نکھار پیدا ہوتا گیا۔ حالات کے پیشِ نظر اصطلاحات کے دائرہ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی۔