کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 598
نے’’کان یکذب‘‘ کی جرح کی ہے۔ (الجرح والتعدیل: ۶/ ۶۲، رقم: ۳۲۶)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان (۴/ ۵۳) میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا رد کیا ہے، مگر ان کے کلام سے اس کی تفصیل واضح نہیں ہوتی۔
تیسرا راوی عبدالکریم بن خراز ہے جو جابر جعفی کا شاگرد ہے، اس کے بارے میں حافظ ازدی نے کہا: ’’واھی الحدیث جداً‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ عبدالکریم بن عبدالرحمن خراز ہے۔‘‘ (لسان المیزان: ۴/ ۵۳)
یعنی یہ راوی اسی طبقے کا ہے مگر عبدالرحمن کا بیٹا ہے ابن یعفور نہیں۔ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے سنن میں اس سے روایت لی ہے۔ (تہذیب الکمال: ۱۲/ ۷)
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ’’مستقیم الحدیث‘‘ کہا ہے۔
(الثقات: ۷/ ۴۲۳، اس میں عبدالکریم بن عبدالکریم بجلی ہے جو خطا ہے، درست وہی ہے جو ہم ذکر کر آئے ہیں)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’وثق‘‘ کہا ہے۔ (الکاشف: ۲/ ۲۰۵، رقم: ۳۴۷۳)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس اصطلاح کا اطلاق عام طور پر ان راویوں پر کرتے ہیں جن کو صرف حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہوتا ہے، مگر خود حافظ ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال میں عام طور پر ان راویوں کو مجہول کہتے ہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایسے راویوں کو مقبول کہتے ہیں جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔
شائقین ملاحظہ فرمائیں: (الصحیحۃ للألباني: ۵/ ۱۷۹)