کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 595
اس سے معلوم ہوا کہ حافظ صاحب نسیان یا تردد کا شکار ہوگئے ہیں یا پھر یہی ان کا آخری فیصلہ ہے۔ ایسے متکلم فیہ راوی اور ضعیف عند الجمہور کا تفرد بالخصوص جب اس کی روایت میں ضعف اور نکارت ہو، ناقابلِ قبول ہے۔
مضعفینِ حدیث:
1 اس روایت کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔ امام بزار رحمہ اللہ نے بھی اس کا کچھ حصہ روایت کیا ہے اور اس کے رجال میں کمزوری ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد: ۹/ ۲۳)
2 حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے یہ فرما کر اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے:
’’صحیح بات یہی ہے کہ عیسی علیہ السلام اس عمر کو نہیں پہنچے۔‘‘(تاریخ دمشق: ۴۷/ ۴۸۲)
3 حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حدیث غریب‘‘ (البدایۃ والنھایۃ: ۲/ ۹۵، دوسرا نسخہ: ۲/ ۲۹۲)
4 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کے اثبات میں شک کا اظہار یوں کیا ہے:
’’جب عیسی علیہ السلام کو (آسمانوں پر) اٹھایا گیا تو اس وقت ان کی عمر میں اختلاف کیا گیا ہے، ایک قول کے مطابق تینتیس برس اور دوسرے کے مطابق ایک سو بیس برس ہے۔‘‘ (فتح الباري: ۶/ ۴۹۳)
5 محدث البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے۔‘‘ (الضعیفۃ: ۹/ ۴۲۵)
خلاصہ یہ کہ محمد بن عبداللہ الدیباج جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔ متقدمین میں سے اس کی توثیق صرف ایک محدث سے ثابت ہے، امام نسائی