کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 587
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’والمحفوظ أن الذي روی حدیث الضحک یقال لہ: معبد الجہني، وکذا وقع عند الدارقطني۔‘‘ (الإیثار لابن حجر، رقم: ۲۴۰) ’’حدیث الضحک کا راوی معبد بن صبیح نہیں، محفوظ یہ ہے کہ اس کا راوی معبد جہنی ہے جیسا کہ سنن دارقطنی میں ہے۔‘‘ حافظ صاحب نے اسے اور اس کی روایت کو مراسیل میں ذکر کیا ہے۔ (اتحاف المھرۃ: ۱۹/ ۵۴۶۔۵۴۷) تنبیہ: حافظ صاحب نے اتحاف میں معبد بن غیلان الجہنی البصری کا ذکر کیا ہے، جبکہ درست معبد بن خالد وغیرہ ہے۔ کتاب کے فاضل محقق نے بھی اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔ انھوں نے اتحاف المہرۃ میں سنن دارقطنی کی سند نقل کی ہے، جبکہ وہاں سرے ہی سے معبد بن غیلان کا تذکرہ نہیں ہے۔ راجح قول: قارئینِ کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ محدثین کا رجحان اس جانب ہے کہ یہ معبد بن صبیح ہے یا معبد جہنی قدری، اور وہ دونوں تابعی ہیں۔ لہٰذا حدیث القہقہہ مرسل ہوئی جو کہ ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے۔ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث محدثین کے ہاں ثابت نہیں، اہلِ حجاز بھی اسے نہیں جانتے۔‘‘ (الاستیعاب: ۳/ ۴۷۹، ترجمۃ: ۲۴۷۴) حاصل یہ ہے کہ یہ روایت اور اس جیسی باقی تمام مرفوع اور موقوف مرویات ضعیف ہیں۔ ہمیں تو سرِ دست صرف اتنا ہی عرض کرنا تھا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس