کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 585
ثالثاً: حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’معبد بن ابی معبد الکعبی الخزاعی، جس کی والدہ کا نام ام معبد ہے، کو معبد بن صبیح بھی کہا جاتا ہے۔
(تلقیح فھوم أھل الأثر لابن الجوزي، ص: ۱۲۶)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا یہ موقف قابلِ غور ہے، کیونکہ معبد خزاعی صحابی ہیں اور معبد بن صبیح تابعی ہیں۔ مؤخر الذکر کو حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات التابعین میں ذکر کر کے ان کے صحابی ہونے کی نفی کی ہے۔ (الثقات: ۵/ ۴۳۳)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی الاصابۃ کی القسم الرابع میں انھیں ذکر کیا ہے۔ الإصابۃ (۵/ ۲۹۵) جن میں وہ ان اشخاص کا ذکر کرتے ہیں جنھیں غلطی یا وہم کی وجہ سے جماعتِ صحابہ میں شمار کیا گیا ہو۔ جیسا کہ انھوں نے خود تصریح کی ہے کہ ’’القسم الرابع فیمن ذکر في الصحابۃ غلطاً‘‘ اور مقدمۂ کتاب میں اس کی صراحت بھی کی ہے۔
چوتھے قول کا مناقشہ: یہ راوی معبد بن خالد رضی اللہ عنہ نہیں:
علامہ ابن الترکمانی کا رجحان اس جانب ہے کہ یہ معبد بن ابی معبد خزاعی ہے یا پھر معبد جہنی ہے جو قدری نہیں، اگر اسے قدری تسلیم کیا جائے تو تب بھی اس کے صحابی ہونے سے انکار کی گنجائش نہیں، کیونکہ فتحِ مکہ کے روز قبیلہ جہینہ کے چار علم برداروں میں سے ایک تھے۔ (الجوہر النقی: ۱/ ۱۴۵۔ ۱۴۶) علامہ بدر الدین عینی نے بھی اسی بات کو دہرایا ہے۔ (البنایۃ شرح الہدایۃ: ۱/ ۲۹۲)۔ علامہ ابن ہمام نے بھی علامہ عینی کا حقِ شاگردی ادا کیا ہے۔ (فتح القدیر: ۱/ ۳۵) مولانا عبدالحی لکھنوی کا بھی یہی موقف ہے۔(الھسھسۃ بنقض الوضوء بالقھقھۃ، ص: ۱۴، ۱۵)