کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 584
معبد خزاعی کے ترجمے میں ذکر کرنا غیر صحیح ہے یا اس مبہم اور مجہول راوی کو معبد خزاعی قرار دینا بہر نوع غلط ہے۔
تیسرے قول کا مناقشہ: معبد بن صبیح تابعی ہے:
معبد بن صبیح (صبیحۃ) القرشی التیمی تابعی ہیں۔ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے تابعین میں ذکر کیا ہے۔ الثقات لابن حبان (۵/ ۴۳۲۔ ۴۳۳)۔ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات: ۵/ ۴۳۲۔ ۴۳۳)، حافظ ابن عبدالبر (الاستیعاب: ۳/ ۴۷۹، ترجمۃ: ۲۴۷۴)، حافظ ابن الاثیر الجزری رحمہ اللہ (أسد الغابۃ: ۴/ ۳۹۱)، حافظ ذہبی رحمہ اللہ (تجرید أسماء الصحابۃ (۲/ ۸۵، ترجمۃ: ۹۵۱)، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (الإصابۃ: ۵/ ۲۹۵، ترجمۃ: ۸۵۹۱) وغیرہ نے فرمایا ہے کہ حدیث القہقہۃ کا یہی راوی ہے۔
بلکہ مسند الإمام الأعظم أبي حنیفۃ لأبي عبد اللّٰه الحسین بن محمد بن خسرو ۵۲۲ھ، (۲/ ۸۰۳، حدیث: ۱۰۵۰) اور جامع المسانید للخوارزمی (۱/ ۲۷۴) میں عن الحسن عن معبد بن صبیح مرفوعاً مروی ہے۔ مگر احناف انھیں معبد بن صبیح تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں!!!
ثانیاً: حافظ ابو نُعیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ورواہ أسد بن عمرو عن أبي حنیفۃ فقال: معبد بن صبیح۔‘‘معرفۃ الصحابۃ (۵/ ۲۵۲۹) و أسد الغابۃ (۴/ ۳۹۱)
اسد بن عمرو پر محدثین نے سخت تنقید کی ہے۔(لسان المیزان: ۱/ ۳۸۳۔۳۸۴)
اس پر مستزاد یہ کہ اس نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دیگر تلامذہ کی مخالفت کی ہے، کیونکہ وہ اسے بدونِ نسبت ذکر کرتے ہیں یا کم از کم معبد بن صبیح باور نہیں کراتے۔