کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 583
اساتذہ کا بھی ذکر کیا ہے جن سے روایت کرنے میں وہ منفرد ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے یہاں بھی حسن بصری عن معبد خزاعی کا مطلق طور پر ذکر ہی نہیں کیا۔
8 حافظ بقی بن مخلد ۲۷۶ھ نے اپنی مسند، جو دنیا کی سب سے بڑی مسند تھی، (الرسالۃ المستطرفۃ للکتانی، ص:۶۳) میں معبد خزاعی کی کوئی روایت نہیں لائے۔ یہ مسند تو مفقود ہے تاہم حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے اس میں موجود سبھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں کو ایک چھوٹے سے رسالے میں جمع فرمایا ہے، جو جوامع السیرۃ لابن حزم کے ساتھ ہی مطبوع ہے۔ (دیکھئے: أسماء الصحابۃ الرواۃ وما لکل واحد من العدد، ص:۲۷۳۔ ۳۱۵) اس میں موجود اس قسم، جو ان صحابۂ کرام کے اسماء کے ساتھ مختص ہے جن کی صرف ایک ہی روایت ہے، میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں۔
بلکہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی تلقیح فہوم اہل الاثر میں بھی ان صحابۂ کرام کا تذکرہ کیا ہے اور ان اسماء پر بطورِ استدراک حافظ ابوبکر البرقی احمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم ۲۷۰ھ (المنتظم لابن الجوزی، ج:۱۲، ص:۲۳۰) کی کتاب التاریخ سے دیگر صحابہ وغیرہ کا بھی اضافہ کیا ہے۔ مگر ان سب میں معبد خزاعی کا ذکر تک نہیں ہے۔
9 امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے مکی بن ابراہیم نے یہی روایت (سنن الدارقطني، ج:۱، ص:۱۶۷، ح:۲۲) بغیر کسی نسبت اور تحدید کے بیان کی ہے۔
10 مکی بن ابراہیم کی ایک جماعت نے متابعت کی ہے، جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اس لیے جماعت کی روایت ہی معتبر ہوگی۔ تلک عشرۃ کاملۃ
ان مضبوط قرائن سے معلوم ہوا کہ امام ابونعیم رحمہ اللہ وغیرہ کا اس روایت کو