کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 58
سوءِحفظ، مستور، اختلاط، ارسال وغیرہ ہو اور وجۂ ضعف راوی کا فسق یا جھوٹ کا الزام نہ ہو، بشرط کہ اس کی دوسری سندیں ضعف میں اس جیسی یا اس سے مستحکم ہوں۔ یا کوئی ضعیف شاہد یا شواہد اس کے مؤید ہوں۔
2. ضعیف حدیث کی مؤید حسن حدیث ہو۔
پہلی تین اقسام سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس مضمون میں حسن لغیرہ کی حجیت اور عدمِ حجیت پر بحث کی جائے گی۔ واللّٰه المستعان وعلیہ التکلان۔
سببِ نوشت:
حسن لغیرہ کے بارے میں بعض لوگ انتہائی غیر محتاط رویہ اپناتے ہیں، ان کے نزدیک ضعیف حدیث+ ضعیف حدیث کی مطلق طور پر کوئی حیثیت نہیں، خواہ اس حدیث کے ضعف کا احتمال بھی رفع ہوجائے۔ بزعمِ خویش حدیث اور اس کے علوم کے بارے میں ان کی معلومات امام ترمذی، حافظ بیہقی، حافظ عراقی، حافظ ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہم سے زیادہ ہیں۔ حالانکہ یہ بداہتاً معلوم ہے کہ جس طرح رواۃ کی ثقاہت کے مختلف طبقات ہیں اسی طرح ان کے ضعف کے بھی مختلف درجات ہیں۔ کسی راوی کو نسیان کا مرض لاحق ہے تو کسی پر دروغ بافی کا الزام ہے، بعض کے بارے میں محدثین کا فیصلہ ہے: ’’ یُعْتَبَرُ بِھِمْ، یُکْتَبُ حَدِیْثُھُمْ‘‘ جبکہ بعض کے بارے میں ’’لَا یُعْتَبَرُ بِھِمْ، لَا یُکْتَبُ حَدِیْثُھُمْ‘‘ (ان کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، ان کی حدیث لکھی نہیں جائے گی) کا فیصلہ ہے۔
حسن لغیرہ کا مطلق طور پر انکار کرنے والے جس انداز سے متأخرین محدثین کی کاوشوں کو رائیگاں کرنے کی سعی نامشکور کرتے ہیں، اسی طرح متقدمین جہابذۂ فن کے راویان کی طبقہ بندی کی بھی ناقدری کرتے ہیں اور وہ حسبِ خیال فرامینِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مصروف ہیں۔ إِنا للّٰه وإِنا إلیہ راجعون۔