کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 565
مصطلح اور جرح وتعدیل کی کتب میں مذکور ہے۔ سب سے عمدہ اور جامع تعریف دکتور خالد بن منصور الدریس حفظہ اللہ نے بیان فرمائی ہے، چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
’’اعتضاد روایۃ ضعیفۃ قابلۃ للانجبار بروایۃ ضعیفۃ أخری فأکثرہا قابلۃ للانجبار أیضاً ‘‘[الحدیث الحسن لذاتہ ولغیرہ للدکتور خالد، ج:۵، ص:۲۰۸۸]
’’ایسی ضعیف حدیث جو تقویت حاصل کرنے کے قابل ہو وہ ایسی ضعیف حدیث یا احادیث سے تقویت حاصل کرلے جو تقویت دینے کے لائق ہو۔‘‘
اور کوئی بھی روایت اسی وقت ہی تقویت حاصل کرنے کے قابل ہوسکتی ہے جب
1 اس کی سند میں متہم بالکذب یا ایسا راوی نہ ہو جس کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔
2 ایک سے زائد اس کی سندیں ہوں۔
3 اپنے سے اقوی (زیادہ مضبوط) کے مخالف نہ ہو۔
4 متن حدیث کا معنی مختلف نہ ہو۔
5 اختلافِ مخارج ہو۔ یعنی وہ سند حقیقت میں ایک راوی کے گرد نہ گھومتی ہو۔
ان پانچ شروط کی تفصیل ہمارے مقالے ’’الحسن لغیرہ‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔
قارئینِ کرام! حسن لغیرہ کی مذکورہ بالا تعریف اور تقویت کے حصول کے لیے مذکورہ بالا شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کو طے کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ مذکورہ بالا احادیث حسن لغیرہ کے درجے تک بھی نہیں پہنچ سکتیں، بلکہ وہ سب کی سب ایک دوسرے کے ضعف کو مزید تقویت پہنچا رہی ہیں۔ اسی لیے تو امام ابوحاتم، امام بخاری، امام ترمذی، امام دارقطنی، امام حاکم، امام عقیلی، امام ابن عدی، امام ابن الجوزی رحمہم اللہ وغیرہم نے ان کی انفرادی حیثیت سے کلام کیا یا مجموعی