کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 564
حامل ہیں کہ انہیں حکماً مرفوع قرار دیا جاسکے۔ مگر تابعین کے بارے میں یہ قاعدہ نہیں ہے۔ بلکہ صحابۂ کرام کے بارے میں یہ قید بھی لگاتے ہیں کہ وہ اسرائیلیات بیان کرنے والے نہ ہوں۔ اس لیے امام البانی رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا قول درست نہیں ہے۔
یہ حدیث حسن لغیرہ بھی نہیں:
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس حدیث کو آٹھ صحابۂ کرام بیان کریں اور بقول امام البانی کے ان کا ضعف ہلکے درجے کا ہو تو وہ حدیث حسن لغیرہ کیوں کر نہیں ہوسکتی؟
یہ بات معلوم ہے کہ حسن لذاتہ اور حسن لغیرہ مصطلح الحدیث کی انتہائی دقیق اور مشکل بحوث میں سے ایک ہیں۔ کیونکہ ان دونوں اقسام میں مدار ان راویوں پر ہوتا ہے جن کے بارے میں محدثین کی آرا مختلف ہوتی ہیں، جس بنا پر ان میں جمع وتطبیق کی صورت پیدا کرنا اور اس سے درست نتیجہ برآمد کرنا بلاشبہ بہت ہی کٹھن کام ہے۔ جس کے لیے مہارتِ تامہ ہونے کے ساتھ ساتھ طویل ممارست کا ہونا بھی لازمی جز ہے۔ اس فن کی دقت اور حساسیت کا احساس امام البانی رحمہ اللہ کو بھی خوب ہے۔ چناں چہ وہ فرماتے ہیں:
’’وہذا أمر صعب قل من یصیر لہ، وینال ثمرتہ، فلا جرم أن صار ہذا العلم غریباً بین العلماء، واللّٰہ یختص بفضلہ من یشاء‘‘ [إرواء الغلیل، ج:۳، ص:۳۶۳]
خلاصہ یہ ہے کہ یہ ایک لطیف فن ہے۔ اس پر وہی درک پاسکتا ہے جسے اللہ ربّ العزت خصوصی فضل سے نواز دیں۔ اس کی اسی نظری اور تطبیقی صورت میں اختلاف کی وجہ سے اس میں بھی اختلاف ہوا اور اس کی متعدد تعریفات کی گئیں جن کی تفصیل