کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 563
اس لیے درست نام علی بن عمر بن محمد بن العباس ابوالحسن الرازی القصار الفقیہہ الشافعی ہے۔ اور ان کا یہی درست نام حافظ الخلیلی رحمہ اللہ (الارشاد، ج:۲، ص:۶۹۱) کے علاوہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے خود (سیر أعلام النبلاء، ج:۱۷، ص:۶۱) اور تاریخ الاسلام (حوادث ووفیات: ۳۸۱۔ ۴۰۰ھ، ص:۴۰۰) میں ذکر کیا ہے۔
اسی طرح المستدرک للحاکم (ج:۱، ص:۴۹) میں بھی علی بن محمد بن عمر ہی مذکور ہے، مگر شیخ، محدث الیمن مقبل بن ہادی الوادعی نے اس کی اصلاح فرمائی ہے۔ [رجال الحاکم في المستدرک، ج:۲، ص:۶۸]
تنبیہ (1): السلسلۃ الصحیحۃ (ج:۳، ص:۱۳۸) اور تہذیب التہذیب (ج:۴، ص:۵۰۵ طبع دار إحیاء التراث العربی) میں الفضیل کے بجائے الفضل ہے۔ درست نام الفضیل یعنی تصغیر کے ساتھ ہے۔
تنبیہ (2): شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ میں الفضیل کی نسبت ’’الہوزی‘‘ مرقوم ہے۔ جبکہ ہوزن بن عوف کی طرف نسبت کرتے ہوئے الہوزنی بنتی ہے۔ یہی نسبت امام بخاری رحمہ اللہ ، امام ابن ابی حاتم اور حافظ سمعانی رحمہم اللہ (الأنساب، ج:۵، ص:۶۵۶) نے ذکر کی ہے۔ حافظ ابن الاثیر الجزری رحمہ اللہ نے امام سمعانی رحمہ اللہ کی متابعت کی ہے۔ [اللباب فی تہذیب الأنساب، ج:۳، ص:۳۹۵]
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
امام البانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ایسے آثار حکماً مرفوع ہوتے ہیں کیوں کہ ان میں رائے کو دخل نہیں ہوتا۔ [السلسلۃ الصحیحۃ، ج:۳، ص:۱۳۸ ملخصاً]
عرض ہے کہ جمہور محدثین کے ہاں صحابۂ کرام کی مخصوص آرا ہی اس حیثیت کی