کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 562
ترجمہ: ۴۲۰) اور امام شعبہ رحمہ اللہ (الثقات لابن شاھین، رقم: ۱۱۲۳) وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے۔ اور مؤخر الذکر مجہول ہیں جیسا کہ اوپر امام بخاری رحمہ اللہ اور ابن ابی حاتم رحمہما اللہ کے حوالے سے نقل ہوچکا ہے۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بھی ان دونوں ائمہ کی متابعت میں ان دونوں راویوں کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے۔ [المتفق والمفترق، ج:۳، ص:۱۷۶۷، ۱۷۶۸] اس لیے امام ذہبی رحمہ اللہ کا ان دونوں راویوں کو اکٹھا کرنا اور الہوزنی کے تذکرہ میں القیسی کی توثیق نقل کرنا محلِ نظر ہے۔ ’’شرح اصول اعتقاد‘‘ میں طباعتی غلطی: امام لالکائی کے شیخ کا نام علی بن محمد بن عمر مذکور ہے جب کہ درست نام علی بن عمر بن محمد ہے۔ آپ معروف امام ہیں۔ امام عبدالرحمن بن ابی حاتم رحمہ اللہ سے بہ کثرت روایت کرتے ہیں۔[الإرشاد للخلیلی، ج:۲، ص:۶۹۱۔ بتجزئۃ السلفی] اور حافظ الخلیلی رحمہ اللہ ان سے بہ کثرت روایت کرتے ہیں۔[فہرست کتاب الإرشاد، ج:۳، ص:۱۱۰۸، رقم: ۴۶۱] حافظ ذہبی رحمہ اللہ (العبر، ج:۳، ص:۶۴) اور ان کی متابعت میں حافظ ابن العماد الحنبلی رحمہ اللہ (شذرات الذہب، ج:۳، ص:۱۴۹)نے ان کا وہی نام ذکر کیا ہے جو شرح اصول اعتقاد لالکائی میں وارد ہوا ہے۔ اسی طرح حافظ ذہبی نے امام عبدالرحمن بن ابی حاتم کے شاگردوں میں علی بن محمد القصار ذکر کیا ہے۔ (السیر، ج:۱۳، ص:۲۶۴) مگر اس نام کے درست ہونے میں یہ احتمال موجود ہے کہ مصنف نے موصوف کی نسبت دادا کی طرف توسعاً کردی ہو۔ جیسا کہ عرب کے ہاں یہ طریقہ رائج ہے۔