کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 561
مطلوب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ (التاریخ الکبیر، ج:۷، ص:۱۲۰۔ ۱۲۱) اور حافظ ابن ابی حاتم رحمہما اللہ (الجرح والتعدیل، ج:۷، ص:۷۴، ترجمہ: ۴۲۱) نے اسے ذکر کرکے کوئی کلمۂ توثیق یا تجریح ذکر نہیں فرمایا۔ البتہ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے (الثقات، ج:۵، ص:۲۹۵) میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کے اسی قول کی اساس پر اسے مقبول قرار دیا ہے۔ [التقریب: ۶۱۰۹] یعنی جب اس کی متابعت موجود ہوگی تو اس کی روایت مقبول ہوگی بصورتِ دیگر مردود۔ باقی رہا حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کا مجہول راویانِ حدیث کو کتاب الثقات میں ذکر کرنا تو اس بابت ان کا تساہل معروف ہے۔ اس لیے ان کا اسے الثقات میں ذکر کرنا بھی دائرۂ جہالت سے باہر نکال نہیں سکتا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ یہ اثر بھی اپنے قائل کے مجہول ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار اور ضعیف ہے۔ نیز امام البانی رحمہ اللہ کے استدلال پر بھی دلالت نہیں کرتا۔ فلیتدبر! فضیل کی توثیق میں حافظ ذہبی کا وہم: حافظ ذہبی رحمہ اللہ تاریخ الاسلام (حوادث ووفیات: ۱۰۱۔ ۱۲۰ھ، ص:۲۱۶) فرماتے ہیں: وکان ثقۃ کہ فضیل بن فضالۃ ثقہ ہیں۔ مگر دلائل امام ذہبی رحمہ اللہ کے اس قول کے مؤید نہیں۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس نسیان کی وجہ یہ ہے کہ دو راوی ہم نام ہیں۔ ایک القیسی کے لقب یا نسبت سے معروف ہیں جبکہ دوسرے الہوزنی کی نسبت سے۔ پہلے راوی ثقہ ہیں۔ امام ابن معین رحمہ اللہ ، امام ابوحاتم رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل، ج:۷، ص:۷۴،