کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 558
دو آدمی ہیں، پہلے قاص (قاضِ) عمر بن عبدالعزیز کے لقب سے مشہور ہیں اور ابومعشر کا ان سے روایت کرنا حافظ مزی (تہذیب الکمال، ج:۱۷، ص:۱۷۱) نے ذکر فرمایا ہے۔
اور دوسرے محمد بن قیس جو ’’شیخ أبي معشر‘‘ کی نسبت سے معروف ہیں اور یہ ضعیف راوی ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی ’’شیخ ابی معشر‘‘ کو ترجیح دی ہے اور جو اس سے مراد قاص عمر بن عبدالعزیز لیتے ہیں، ان کا ردّ کیا ہے۔ چناں چہ وہ فرماتے ہیں:
محمد بن قیس شیخ أبی معشر، ضعیف، من الرابعۃ و وہم من خلطہ بالذي قبلہ … تمییز۔ [التقریب: ۷۰۳۲]
اس لیے اس اثر کا دوسرا ضعف یہ ہے کہ ابومعشر کے شیخ بھی ضعیف ہیں۔
شرح لالکائی میں طباعتی اغلاط:
تنبیہ (۱): اس اثر کی ظاہری سند سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن قیس، ابومعشر نجیح کے متابع ہیں۔ حالاں کہ یہ متابع نہیں بلکہ محمد بن قیس، ابومعشر کے استاد ہیں۔ اس لیے درست سند یوں ہوگی: أبو معشر، عن محمد بن قیس، عن أبي حازم … اس پر مستزاد یہ ہے کہ کسی بھی حدیث میں محمد بن قیس اور ابومعشر ایک دوسرے کے متابع نہیں ہیں۔ واللہ اعلم
تنبیہ (۲): حافظ لالکائی کے دادا استاد کا نام احمد بن الحسن وارد ہوا ہے جب کہ درست نام (محمد بن) احمد بن الحسن ابوعلی البغدادی المعروف بابن الصواف ہے۔ اور یہی نام شرح اصول اعتقاد میں (ج:۱، ص:۵۵، حدیث:۱۲ و ۲۹۳، ۴۰۹) درست واقع ہوا ہے۔