کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 555
معاملہ اسی طرح کا ہے۔ [معرفۃ الثقات والضعفاء للعجلی، ج:۱، ص:۲۸۴، رقم: ۲۶۴، ترتیب الہیثمی والسبکی] اس تفرد اور انقطاع کے باوصف حجاج چوتھے طبقے کے مدلس راوی ہیں۔ [معجم المدلسین للشیخ محمد بن طلعت، ص: ۱۲۹۔ ۱۳۰] اور روایت معنعن ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ کی مذکورہ بالا مرفوع حدیث کو یحی بن ابی کثیر کی مرسل روایت کی بنا پر منکر اور غیر محفوظ قرار دیا ہے۔ چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ اپنے شیخ امام حاکم رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: إنما المحفوظ ہذا الحدیث من حدیث الحجاج بن أرطاۃ عن یحیی بن أبي کثیر مرسلاً۔‘‘[شعب الإیمان للبیہقی، ج:۳، ص:۳۷۹، حدیث: ۳۸۲۵، ۳۸۲۶] ’’کہ حجاج بن ارطاۃ کی یحی بن ابی کثیر سے مرسل روایت ہی محفوظ ہے۔‘‘ یعنی اس سند میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا واسطہ منکر ہے اور محفوظ روایت یحی بن ابی کثیر سے مرسل ہی ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس قول کی خاموش تائید کی ہے۔ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ’’العلل المتناہیۃ‘‘ (ج:۲، ص:۶۶، حدیث: ۹۱۵) میں ذکر کیا ہے اور اس کی تضعیف میں امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام بخاری رحمہ اللہ کا مختلط سا قول بیان کیا ہے ا ور پھر حافظ دارقطنی رحمہ اللہ کی تضعیف بھی نقل کی ہے۔ حافظ الدنیا، امام دارقطنی رحمہ اللہ نے مسندِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں راویانِ حدیث کے جہاں اضطراب کو ذکر کیا، وہیں حضرت ابوثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ کی سند کو بھی ذکر کیا اور کثیر بن مرۃ الحضرمی کے ارسال کی جانب بھی نشان دہی فرمائی، پھر فرمایا: