کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 554
۷۶۔۷۷، حدیث: ۹) شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ للالکائي (۳/ ۴۴۸، حدیث: ۷۶۴) العلل للدارقطني (سؤال: ۳۵۷۳) العلل المتناھیۃ لابن الجوزي (۲/ ۶۶، حدیث: ۹۱۵) وغیرہ میں ہے۔ ائمۂ فن کی جرح: اس حدیث کا مرفوع بیان کرنا بھی راویانِ حدیث کا وہم ہے۔ اور یہ سند بھی اضطراب کی وجہ سے معرضِ وجود میں آئی ہے، اسی لیے امام ترمذی رحمہ اللہ اس سند پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حدیث عائشۃ لا نعرفہ إلّا من ہذا الوجہ من حدیث الحجاج، وسمعت محمداً … یعنی البخاری … یضعف ہذا الحدیث۔ وقال: یحیی بن أبي کثیر لم یسمع من عروۃ، والحجاج بن أرطاۃ لم یسمع من یحیی بن أبي کثیر ۔ [ترمذی: ۷۳۹] ’’حجاج بن ارطاۃ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً حدیث کو ہم اسی سند سے جانتے ہیں۔ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ اس حدیث کو ضعیف کہتے تھے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے مزید فرمایا: یحی بن ابی کثیر نے عروہ سے، اور حجاج بن أرطاۃ نے یحی بن ابی کثیر سے نہیں سنا۔‘‘ گویا امام ترمذی رحمہ اللہ نے حجاج بن ارطاۃ کے تفرد کی طرف اشارہ کیا اور پھر سند میں دو مقامات پر انقطاع کی نشاندہی فرمائی۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کے علاوہ حافظ عجلی رحمہ اللہ نے بھی اس بات کی نشان دہی فرمائی کہ حجاج نے یحی بن ابی کثیر سے کچھ نہیں سنا۔ یہ ان سے مرسل روایت بیان کرتے ہیں۔ مکحول شامی سے بھی ان کا