کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 553
کردیا تو شیخ البانی رحمہ اللہ سمجھے کہ یہ گزشتہ احادیث کا شاہد ہے۔ حالاں کہ وہ سند تو خود ہی اضطراب کی پیداوار ہے۔ اس لیے اس کا وجود اور عدمِ وجود دونوں برابر ہیں۔ اور اس حدیث کی وہی حقیقت ہے جو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی ہے۔ یا پھر ابن لہیعہ کی بیان کردہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی ہے۔
ساتواں شاہد: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا :
امام البانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’حجاج عن یحیٰ بن أبي کثیر، عن عروۃ، عن عائشۃ مرفوعاً بیان کرتے ہیں۔ اس کے راوی ثقہ ہیں، مگر حجاج بن ارطاۃ مدلس ہیں اور حدیث معنعن ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے سنا۔‘‘ [السلسلۃ الصحیحۃ، ج:۳، ص:۱۳۸]
یہ حدیث مسند أحمد (۶/ ۲۳۸) سنن ابن ماجہ (رقم: ۱۳۸۹) مصنف ابن أبي شیبۃ (۶/ ۱۰۸، حدیث: ۲۹۸۵۸) مسند إسحاق بن راہویہ (۲/ ۳۲۶۔ ۳۲۷، حدیث: ۸۵۰، ۱۷۰۰، ۱۷۰۱) شعب الإیمان (۳/ ۳۷۹، حدیث: ۳۸۲۴، ۳۸۲۶) فضائل الأوقات (ص: ۱۳۰، رقم: ۲۸) والدعوات الکبیر کلھم للبیھقي بحوالہ: الباعث علی إنکار البدع والحوادث لأبي شامۃ (ص: ۱۳۱۔ ۱۳۲) شرح السنۃ للبغوي (۴/ ۱۲۶، حدیث ۹۹۲) مسند عبد بن حمید (۳/ ۲۳۳، حدیث: ۱۵۰۷ ۔المنتخب۔) مشیخۃ أبي طاہر بن أبي الصقر للإمام محمد الأنباري (ص: