کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 552
محمد بن یوسف، ابن ثوبان، عن أبیہ، عن مکحول، عن خالد بن معدان عن کثیر بن مرۃ مقطوعاً یعنی کثیر کا قول بیان کرتے ہیں۔ [کتاب النزول للدارقطني، ص: ۸۴] جبکہ ابوخلید، ابن ثوبان، عن أبیہ، عن خالد بن معدان، عن کثیر بن مرۃ، عن معاذ بن جبل مرفوعاً بیان کرتے ہیں۔ [علل الدار قطني، ج:۶، ص:۵۱] ابوخلید کبھی الأوزاعي وابن ثوبان، عن أبیہ، عن مکحول، عن معاذ بن جبل مرفوعاً بیان کرتے ہیں۔ اور یہ وہی سند ہے جسے امام البانی رحمہ اللہ نے شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت کے لیے اساس قرار دیا اور پھر اس کے سات شواہد بیان کیے۔ گزشتہ صفحات میں ہم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے بے اصل ہونے کے لیے امام ابو حاتم رحمہ اللہ اور حافظ دارقطنی رحمہ اللہ کا قول ذکر کرآئے ہیں۔ امام مکحول کے شاگرد کبھی ابوادریس سے مرسلاً بیان کرتے ہیں۔ [علل الدارقطني، ج:۶، ص:۵۱] اور کبھی مقطوعاً۔ [کتاب النزول للدارقطني: ۸۵] اور کبھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً ذکر کرتے ہیں۔ [علل الدارقطنی، ج:۱۴، ص:۲۱۷] اور کبھی مکحول براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔ [کتاب النزول: ۸۶،۸۷] اور کبھی حضرت کعب الاحبار سے ان کا قول بیان کرتے ہیں۔ [کتاب النزول:۸۷] اسی اضطراب کی بنا پر حافظ دارقطنی رحمہ اللہ نے متعدد مقامات پر فرمایا کہ یہ حدیث ہی ثابت نہیں۔ اس اضطراب کی معمولی جھلک ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ راویانِ حدیث اسے مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ جب کسی راوی نے اسے مرفوع بیان