کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 548
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (الأمالي المطلقۃ، ص:۱۲۲) نے صراحت کی ہے۔
اسی طرح محمد بن ابی بکر کا اپنے والد محترم، حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے سماع ممکن نہیں کیونکہ محمد بن ابی بکر حجۃ الوداع کے سفر میں پیدا ہوئے۔
[صحیح ابن خزیمۃ: ۴/ ۱۶۷، حدیث: ۲۶۱۰ وجامع التحصیل للعلائی، ص:۳۱۰]
جب حضرت ابوبکر الصدیق کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے کی عمر تین برس سے بھی کم تھی۔ [البحر الزخار، ج:۱، ص:۱۵۶]
حافظ بزار رحمہ اللہ نے بھی اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ محمد بن ابی بکر نے اپنی صغر سنی کی وجہ سے اپنے باپ سے سماع نہیں کیا۔
[البحر الزخار، ج:۱، ص:۱۵۸]
گویا اس سند میں انقطاع در انقطاع ہے۔ قاسم بن محمد کا اپنے باپ محمد سے عدمِ سماع، اور محمد کا اپنے باپ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے عدمِ سماع۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحسین کا جواب:
لیکن اگر اس کی دوسری سند (القاسم بن محمد، عن عمہ، عن أبي بکر الصدیق مرفوعاً) کو درست تسلیم کیا جائے تو امام قاسم بن محمد کی یہ سند سماع پر محمول ہونے کی وجہ سے متصل قرار دی جائے گی۔ کیوں کہ موصوف نے اپنی زندگی کے کم وبیش پینتالیس برس اپنے چچا کی حیات میں گزارے اور آپ تدلیس بھی نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ روایت متصل تسلیم کی جائے گی۔ اسی لیے تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر قاسم بن محمد یہ روایت اپنے چچا عبدالرحمن بن ابی بکر سے روایت کریں تو حسن روایت ہوگی۔ [الأمالی المطلقۃ لابن حجر، ص:۱۲۲]
مگر حضرت قاسم بن محمد کا اپنے چچا سے روایت کرنے کو درستی پر تبھی محمول کیا جائے گا جب اس کی سند کے باقی راوی ثقہ وصدوق ہوں گے۔ مگر یہاں تو عالم