کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 545
گویا حافظ ابوحاتم رحمہ اللہ اسی حدیث پر تبصرہ فرما رہے ہیں کہ اس کے تین راوی مجہول ہیں۔ بلکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے تو مصعب بن ابی ذئب کو متروک قرار دیا ہے۔ [سؤالات البرقانی، رقم:۵۰۸]
دوسری علت: عبدالملک کی منکر روایت:
حافظ ابوحاتم رحمہ اللہ نے تو عبدالملک کو مجہول قرار دیا ہے مگر درست بات یہ ہے کہ موصوف ضعیف راوی ہے اور اس کی یہ روایت منکر ہے۔ چناں چہ امام بخاری رحمہ اللہ اس کی اسی حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ فیہ نظر حدیثہ في أہل المدینۃ۔‘‘
یعنی سخت ضعیف راوی ہے۔ مدنیوں سے اس کی فضلیت نصف شعبان والی روایت معروف ہے۔ [التاریخ الکبیر للبخاری، ج:۵، ص:۴۲۴۔ ۴۲۵]
امام بخاری رحمہ اللہ کی اس جرح کو حافظ ابن عدی رحمہ اللہ نے عبدالملک کے تذکرہ میں بھی ذکر کیا ہے۔ [الکامل لابن عدی، ج:۵، ص:۱۹۴۶]
حافظ بغوی رحمہ اللہ نے شرح السنۃ (ج:۴، ص:۱۲۷) میں اس کی مذکورہ بالا حدیث ذکر کرنے کے بعد اس جرح کو ذکر کیا ہے۔ گویا ان دونوں ائمۂ کرام نے امام بخاری رحمہ اللہ کی تائید کی ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کی تلمیح ’’حدیثہ في أہل المدینۃ‘‘ کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ کا اشارہ شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت والی حدیث کی طرف ہے، جسے عبدالملک نے روایت کیا ہے۔ [میزان الاعتدال، ج:۲، ص:۶۵۹ ملخصاً]
بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد آدم بن موسیٰ کا بیان ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث ہمیں بیان کی۔ الضعفاء الکبیر للعقیلي (ج:۳، ص:۲۹)