کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 544
(ص: ۱۳۶) ذکر أخبار أصبھان لأبي نُعیم (۲/ ۲) طبقات المحدثین بأصبھان لأبي الشیخ (۲/ ۱۴۹۔ ۱۵۰) الضعفاء الکبیر للعقیلی (۳/ ۲۹) شرح السنۃ للبغوی (۴/ ۱۲۷) مسند البزار (۱/ ۱۵۷، حدیث: ۸۰ و ص: ۲۰۶، حدیث: ۸۰ م ۔ البحر الزخار۔) کشف الأستار للہیثمي (۲/ ۴۳۵، حدیث: ۲۰۴۵) شعب الإیمان للبیہقي (۳/ ۳۸۱، حدیث: ۳۸۲۸، ۳۸۲۹) الکامل لابن عدی (۵/ ۱۹۴۶) شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ للالکائي (۳/ ۴۳۸۔ ۴۳۹، حدیث: ۷۵۰) العلل المتناھیۃ لابن الجوزي (۲/ ۶۶۔ ۶۷، حدیث: ۹۱۶) وغیرہ میں ہے۔ پہلی علت: مجاہیل راویان: امام ہیثمی کا اس حدیث کے راوی عبدالملک بن عبدالملک کے بارے میں یہ فرمانا کہ حافظ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے موصوف کو ’’الجرح والتعدیل‘‘ میں ضعیف قرار نہیں دیا اور امام البانی رحمہ اللہ کا ان کی تائید کرنا قابلِ غور ہے۔ کیوں کہ حافظ ابوحاتم رحمہ اللہ نے اس سند کے تین راویوں کو مجہول (ضعیف) قرار دیا ہے۔ ایک تو عبدالملک بن عبدالملک دوسرے ان کے شاگرد اور تیسرے عبدالملک کے استاد ہیں۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ کے الفاظ ان کے بیٹے نقل کرتے ہیں: ’’مصعب بن أبی ذئب: روی عن القاسم بن محمد، روی عنہ عبد الملک بن أبی ذئب۔ روی عمرو بن الحارث، عن عبد الملک بن عبد الملک، عن مصعب بن أبي ذئب ہذا۔ سمعت أبی یقول ذلک۔ ویقول: لا یعرف منہم إلا القاسم بن محمد یعنی في الإسناد‘‘[الجرح والتعدیل، ج:۸، ص:۳۰۶۔ ۳۰۷، ترجمہ: ۱۴۱۸]