کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 542
معروف ہیں، کی تدلیس ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’طبقات المدلسین‘‘ (ص: ۴۲،۴۳) میں ان کا شمار مدلسین کے دوسرے طبقے میں کیا ہے یعنی جن کی تدلیس کم ہوتی ہے۔ مگر بعد میں ’’النکت علی کتاب ابن الصلاح‘‘ (ج:۲، ص:۶۴۰) میں انہیں مدلسین کے تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے جن کے بارے میں حافظ صاحب خود فرماتے ہیں: ’’ من أکثروا من التدلیس وعرفوا بہ۔‘‘ ’’جو بہ کثرت تدلیس کرتے ہیں اور ان کی پہچان ہی تدلیس ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا مؤخر الذکر موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ’’النکت علی کتاب ابن الصلاح‘‘، ’’طبقات المدلسین‘‘ کے بعد کی کتاب ہے۔ اگرچہ دکتور مسفرد مینی نے بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا تعاقب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حافظ صاحب کو انہیں مدلسین کے تیسرے یا چوتھے طبقے میں ذکر کرنا چاہیے تھا۔ [التدلیس فی الحدیث، ص: ۳۰۵] لہٰذا معلوم ہوا کہ امام اعمش کثیر التدلیس ہیں۔ حافظ ابوزرعہ ابن عراقی رحمہ اللہ ، حافظ سیوطی رحمہ اللہ ، امام ذہبی رحمہ اللہ ، امام مقدسی رحمہ اللہ وغیرہم نے بھی انہیں مدلسین میں شمار کیا ہے۔ حافظ ابوالفتح ازدی نے تو کہا ہے کہ ہم اعمش کی تدلیس (عنعنہ) کو قبول نہیں کرتے۔ [الکفایۃ للخطیب البغدادی، ج:۲، ص:۳۸۷] یہاں تک کہ حافظ علائی رحمہ اللہ نے انہیں ’’مشہور بالتدلیس مکثر منہ‘‘ یعنی تدلیس کی وجہ سے شہرت یافتہ قرار دیا ہے۔ [جامع التحصیل للعلائی، ص:۲۲۸، رقم: ۲۵۸] امام اعمش، ضعیف، مجہول اور متروک راویوں سے تو تدلیس کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ تدلیس التسویہ کا بھی ارتکاب کرتے ہیں۔ جیسا کہ امام