کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 535
تیسری علت:
اس روایت کو حسن بن موسیٰ نے ابن لہیعہ سے بالکل آخری دور میں سنا ہے جب لوگ اپنی حدیثوں کو ابن لہیعہ کے سامنے پیش کرتے اور وہ دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کی موافقت کرتے تھے۔
چناں چہ امام العلل وطبیبہا علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الحسن بن موسی إنما سمع من ابن لہیعۃ بآخرہ۔
’’کہ حسن بن موسیٰ نے ابن لہیعہ سے اس کے آخری دور میں سنا ہے۔‘‘[مسند الفاروق لابن کثیر، ج:۲، ص:۶۴۹]
لیجیے! علی الخبیر سقطت!
لہٰذا اس کی سند ظلمات بعضہا فوق بعض کی عملی تصویر ہونے کی بنا پر ضعیف اور ناقابلِ اعتبار ہے۔
رشدین کی متابعت کا جائزہ:
امام البانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’رشدین بن سعد بن حیی نے ابن لھیعہ کی متابعت کی ہے۔ لہٰذا حدیث حسن ہوئی۔‘‘ [الصحیحۃ، ج:۳، ص:۱۳۶]
رشدین بن سعد بھی ضعیف راوی ہے بلکہ اس میں ایک علت وہی تھی جو ابن لہیعہ میں تھی، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے امام قتیبہ بن سعید سے نقل کیا ہے ’’کہ رشدین کو جو کتاب دی جاتی وہ اس سے احادیث بیان کرنا شروع کردیتے تھے۔‘‘
[التاریخ الکبیر للبخاری، ج:۳، ص:۳۳۷، رقم: ۱۱۴۵۔ الضعفاء الصغیر للبخاری، ص:۴۳، رقم: ۱۲۳، تحفۃ الأقویاء]
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حقیقت کی یوں خبر لی ہے کہ ’’وہ ہر سوال کا