کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 534
نیز شیخ موصوف نے یہ بھی صراحت فرمائی ہے کہ شیخ طارق بن عوض اللہ نے اپنی کتاب ’’النقد البناء فی تخریج حدیث أسماء فی کشف الوجہ والکفین للنساء‘‘ میں ابن لہیعہ کے بارے میں مذکورہ بالا نتیجہ ذکر کیا ہے۔[معجم المدلسین] شیخ طارق نے فرمایا ہے: ابن لہیعہ مطلق طور پر ضعیف ہے۔[حاشیۃ المنتخب العلل للخلال، ص:۲۴۹] ابن لہیعہ کے بارے میں مزید تفصیلات کے لیے تحقیق وتعلیق النفح الشذی فی شرح الترمذی للدکتور احمد معبد عبدالکریم (ج:۲، ص:۷۹۴۔ ۸۶۳) اور التذییل علی تہذیب التہذیب للشیخ محمد بن طلعت (ص: ۲۱۳۔ ۲۲۱) وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔ یہ روایت بھی ابن لہیعہ سے عبادلہ میں سے کوئی بھی روایت نہیں کرتا۔ اس لیے ان کی روایت بطورِ اعتبار بھی پیش نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا یہ ان کے سییء الحفظ اور احادیث میں تساہل برتنے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دوسری علت: ابن لہیعہ اس حدیث کو حیی بن عبداللّٰه عن أبي عبدالرحمن الحبلی، عن عبد اللّٰه بن عمرو رضی اللّٰه عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں۔ اور حافظ ابن عدی رحمہ اللہ نے اسی سند سے متعدد منکر روایات حیی بن عبد اللہ شیخ ابن لہیعہ کے ترجمے میں ذکر کی ہیں۔ (الکامل لابن عدی، ج:۲، ص:۸۵۵۔ ۸۵۶) جو دلالت کرتی ہیں کہ حیی بن عبد اللہ کی بہ کثرت منکر روایات ہیں اور ان منکرات میں سے ایک روایت ’’شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت‘‘ والی بھی ہے۔