کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 533
بن مہدی رحمہ اللہ ، امام یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ اور امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ نے اسے ترک کردیا تھا۔ (الکنی والأسماء للإمام مسلم، ج:۱، ص:۵۱۹، رقم: ۲۰۶۰)
امام ابن مہدی جرح وتعدیل کے معتدل اور امام ابن القطان متشدد امام ہیں۔ اگر یہ دونوں کسی راوی کی جرح پر متفق ہوجائیں تو وہ راوی قطعاً ثقہ نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فمن جرحاہ لا یکاد … واللّٰہ … یندمل جرحہ۔‘‘(ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل للذہبي، ص:۱۶۷)
’’جنھیں یہ دونوں مجروح قرا ردیں … اللہ کی قسم … ان کی جرح دور نہیں ہوسکتی۔‘‘
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس قول کا اعتبار حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے۔
[المتکلمون في الرجال، ص:۹۰۔ الإعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ للسخاوی، ص:۱۶۴]
اس لیے امام مسلم رحمہ اللہ کے قول کی روشنی میں ابن لہیعہ کی حیثیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چناں چہ شیخ محمد بن طلعت نے تو اس بات کو ترجیح دی ہے کہ ’’ابن لہیعہ ضعیف الحدیث ہیں خواہ ان سے روایت کرنے والا عبادلہ میں سے کوئی ہو یا ان کے علاوہ دیگر راویانِ حدیث ہوں۔ ہاں، عبادلہ کی روایت دیگر راویان کی نسبت کم ضعیف ہوتی ہے۔‘‘[معجم المدلسین لمحمد بن طلعت، ص:۲۹۴ حاشیہ]
دوسری جگہ یوں لکھتے ہیں: ابن لہیعہ کے بارے میں راجح یہ ہے کہ عبادلہ کی روایت کی صورت میں اعتبار کیا جائے گا مگر ان کی ابن لہیعہ سے روایات سے احتجاج نہیں کیا جائے گا۔ اور اس کی وجہ خود ابن لہیعہ کا ضعیف ہونا ہے۔[معجم المدلسین، ص:۵۰۵، ترجمۃ یعقوب بن عطاء]