کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 532
سند سے امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ’’ابن لہیعہ کی کتب جلنے کے بعد لوگ ان کے پاس لوگوں کی کتابیں لاتے اور ابن لہیعہ (بے پروائی میں) انہیں پڑھنا شروع کردیتے تھے۔‘‘ [الضعفاء الکبیر للعقیلی، ج:۲، ص:۲۹۵]
ان کے اس طرزِ عمل کی گواہی خود اس کے شہر کے باشندوں نے بھی دی ہے۔ [الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج:۷، ص:۵۱۶]
بلکہ ابن لہیعہ کے مصری شاگرد سعید بن ابی مریم، جنہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ثقہ ثبت فقیہ قرار دیا ہے۔ [التقریب: ۲۵۲۴] کا بیان ہے کہ میں نے ابن لہیعہ کی اواخرِ عمر میں بربری قبیلہ دیکھا کہ وہ عراقی راویوں کی احادیث ابن لہیعہ پر پیش کررہے اور ابن لہیعہ ان کی موافقت کررہے تھے۔ میں نے کہا: اے ابوعبدالرحمن (کنیت ابن لہیعہ) یہ احادیث آپ کی تو نہیں۔ جواب دیا: کیوں نہیں! یہ میرے کانوں سے ٹکرائی ہیں۔
[الجرح والتعدیل، ج:۵، ص:۱۴۶۔ الکامل لابن عدی، ج:۴، ص:۱۴۶۲]
اسی طرح ابن لہیعہ کے دوسرے ثقہ شاگرد النضر بن عبدالجبار ابوالاسود کا کہنا ہے کہ ہم ابن لہیعہ کے شیوخ کی روایات کے ساتھ دیگر راویوں کی روایت ملا دیتے اور وہ انہیں اسی طرح پڑھ کر بیان کردیتے۔[الکامل لابن عدی، ج:۴، ص:۱۴۶۲]
اسی طرح کا قول یحی بن حسان التنیسی البصری (ثقۃ، التقریب: ۸۴۸۱) کا ہے۔ [المجروحین لابن حبان، ج:۲، ص:۱۳]
ان اقوال سے معلوم ہوا کہ انھیں (ابن لہیعہ کو) یہ تمیز نہیں ہوسکتی تھی کہ فلاں روایت میں نے فلاں استاد سے سنی ہے یا نہیں۔ اور آپ کے شاگرد بطورِ امتحان یہ طرزِ عمل اختیار کرتے تھے۔ اسی لیے تو امام مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امام عبدالرحمن