کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 531
دکتور ماہر یٰسین فحل فرماتے ہیں:
’’ابن لہیعۃ وہو سییء الحفظ إلا فی روایۃ العبادلۃ۔‘‘[أثر علل الحدیث فی اختلاف الفقہاء، ص:۸۱ حاشیہ]
دوسرا سبب: روایت اور سماع حدیث میں تساہل:
ابن لہیعہ پر دوسری قابلِ اعتماد اور مفسر جرح یہ ہے کہ وہ روایت اور سماعِ حدیث میں تساہل کا مظاہرہ کرتے تھے۔ لوگ احادیث خلط ملط کرکے انہیں تھما دیتے اور وہ انھیں اپنی سند سے بیان کردیتے تھے۔ یعنی اس کی پرواہ کیے بغیر کہ یہ احادیث میں نے اپنے شیوخ سے سنی بھی ہیں یا نہیں۔ اورجب ان پر اعتراض کیا جاتا کہ یہ حدیثیں تو آپ کی نہیں! فرماتے: کیوں نہیں، یہ میری تو ہیں۔ اور کبھی لوگ ان پر احادیث کی قراء ت کرتے تو یہ خاموشی سے انہیں سنتے اور پھر اس کی روایت کی اجازت دیتے تھے جب ان سے استفسار کیا جاتا تو فرماتے جب لوگ مجھ سے ان احادیث کی بابت سوال کریں گے تو میں انہیں بتلاؤں گا کہ یہ میری حدیثیں نہیں ہیں لیکن وہ مجھ سے پوچھتے نہیں اور میں بھی خاموش رہتا ہوں۔
اسی حقیقت کو شیخ الاسلام امام بخاری رحمہ اللہ نے امام قتیبہ بن سعید سے یوں نقل کیا ہے کہ ’’رشدین (بن سعد) اور ابن لہیعہ کو حدیث کی جو کتاب دی جاتی تھی وہ دونوں لاپروائی میں اس کی قراء ت شروع کردیتے تھے۔‘‘[التاریخ الأوسط للبخاری، ج:۴، ص:۷۸۰، رقم: ۱۲۲۷]
امام قتیبہ کا یہی قول حافظ ابن حبان نے بھی المجروحین [ج:۱، ص:۳۰۳] میں نقل کیا ہے۔
امام ابوداود صاحب السنن رحمہ اللہ (سؤالات أبي داود للإمام أحمد، ص: ۲۴۶، رقم: ۲۵۶) نے امام احمد رحمہ اللہ سے اور حافظ عقیلی رحمہ اللہ نے اپنی