کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 530
اور یہی شاگرد ابن لہیعہ کے شیوخ کی روایات کے ساتھ دیگر راویوں کی روایت ملا دیتے اور وہ انھیں اسی طرح پڑھ دیتے۔ [الکامل لابن عدی، ج:۴، ص:۱۴۶۲] بلکہ اس دعویٰ کی تائید خود ابن لہیعہ کے اپنے قول سے ہوتی ہے کہ ’’ولو سألوني لأخبرتہم أن ذلک لیس من حدیثی۔‘‘[الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج:۷، ص:۵۱۶] ’’اگر میرے شاگرد مجھ سے حدیث کی بابت سوال کریں تو میں انھیں بتلا ؤں کہ یہ میری حدیثیں نہیں ہیں۔‘‘ اور کبھی سوءِحفظ کی بنا پر اقرار کرتے کہ یہ میری ہی حدیثیں ہیں، جس کی تفصیل ’’دوسرے سبب‘‘ میں آرہی ہے۔ ان کے سییء الحفظ ہونے کی بنا ہی پر امام ابن معین رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ان کے متقدمین اور متأخرین شاگردوں کا سماع یکساں ہے۔ [سؤالات ابن الجنید، ص:۳۹۳] ایک اور جگہ یوں تنقید کی: لیس بشيئٍ خواہ اسے تغیر ہوا ہو یا نہ ہو۔[سؤالات ابن طہمان، ص:۱۰۸] ابن لہیعہ کے اہلِ علاقہ یعنی مصری حضرات نے بھی اس بات کی گواہی دی کہ اسے اختلاط نہیں ہوا تھا اس کا اوّل وآخر معاملہ یکساں تھا۔ [الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج:۷، ص:۵۱۶] مگر حافظ العلائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ اختلاط سے قبل ہی متکلم فیہ تھا اور اختلاط نے اس کے ضعف کو اور زیادہ کردیا۔ [کتاب المختلطین للعلائی، ص:۳۔ بحوالہ: أثر اختلاف الأسانید والمتون فی اختلاف الفقہاء للدکتور ماہر یاسین فحل، ص:۳۳]