کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 529
بعض محدثین نے انھیں مختلطین راویوں میں بھی شمار کیا ہے اور ان کے اختلاط کے سبب ہی ان کے شاگردوں کی تقسیم بندی کی ہے۔ یعنی جنہوں نے اختلاط سے قبل سنا ہے ان کی روایت صحیح تسلیم کی جائے گی اور بعد از اختلاط روایت کرنے والوں کی روایت ضعیف گردانی جائے گی۔
مگر موصوف اختلاط سے قبل ہی سییء الحفظ تھے۔ اور اختلاط نے اس کی شدت میں مزید اضافہ کردیا۔ ان کے اختلاط نے اس وقت زور پکڑا جب ان کی احادیث کی کتب جل گئیں اور وہ پھر اپنے حافظے سے احادیث بیان کرنے لگے۔ ان کے اس اختلاط کو حافظ ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے تدلیس سے بھی تعبیر کیا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو بنیادی اسباب تھے جس کی بنا پر یہ غلطی کرتے تھے ایک تو ان کا سییء الحفظ (برے حافظے والا) ہونا اور دوسرا روایت وسماعِ حدیث کے معاملے میں بے اعتنائی کا مظاہرہ کرنا۔
ضعف کا پہلا سبب: سوءِحفظ:
ان کے سیء الحفظ ہونے کے بنا ہی پر حافظ ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ نے انہیں ردئ الحفظ قرار دیا ہے۔ [سؤالات البرذعی، ج: ۲، ص: ۳۴۶]
ایک اور مقام پر فرمایا: اس کا اوّل وآخر برابر ہے باستثنائے عبداللہ بن المبارک اور عبدللہ بن وہب۔ [الجرح والتعدیل، ج:۵، ص:۱۴۷]
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ان کا اختلاط ایسا نہ تھا کہ انھیں بالکل ہی معلوم نہ ہوسکتا تھا کہ یہ احادیث میری ہیں یا نہیں، اسی لیے تو ان کے ثقہ شاگرد ابوالاسود کا بیان ہے کہ انہیں آخری عمر تک بھی اختلاط نہیں ہوا تھا۔[معرفۃ الرجال لابن معین روایۃ ابن محرز، ص:۱۰۰، رقم: ۱۳۴، ۴۳۸، ۱۰۱۲]