کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 527
مکحول کے درمیان انقطاع ہے۔ اس سند میں دوسری علت یہ ہے کہ کثیر بن مرۃ اسے مرسلاً بیان کرتے ہیں۔ اور یہ طے شدہ ہے کہ موصوف ثقہ تابعی ہیں۔ [التقریب: ۶۳۲۳] اس لیے روایت مرسل ہے اور وہ مرسل ہی روایت کرتے ہیں۔ [جامع التحصیل للعلائي، ص: ۳۱۸، رقم: ۶۵۰] اس لیے کثیر بن مرۃ کا ارسال بھی مرفوع حدیث کے ضعف کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ جیسا کہ حافظ بیہقی رحمہ اللہ نے مرسل روایت کو جید قرار دیا ہے۔ امام مکحول سے روایت کرنے میں حجاج منفرد نہیں، بلکہ مصنف عبدالرزاق (ج:۴، ص:۳۱۷، حدیث: ۷۹۲۴) میں قیس بن سعد اس کا متابع موجود ہے مگر اس کا شاگرد المثنی بن الصباح ضعیف راوی ہے۔ [التقریب: ۷۲۹۶] اور یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ متابعت اسی وقت مؤثر ہوگی جب متابع تک سند صحیح ہوگی۔ (الإرشادات للشیخ طارق بن عوض اللّٰه، ص: ۶۴) ان راویانِ حدیث کے علاوہ دیگر راویان اسی سند کو مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں جنھیں امام دارقطنی نے کتاب النزول میں بیان کیاہے۔ محدثین کی اس حدیث پر جرح: اسی لیے تو حافظ الدنیا، امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((والحدیث مضطرب غیر ثابت)) [علل الدارقطني: ۶/ ۳۲۴] ’’یہ حدیث مضطرب ہونے کی بنا پر غیر ثابت ہے۔‘‘ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہذا حدیث لا یصح۔‘‘ [العلل المتناہیۃ، ۲/۷۰، حدیث: ۹۲۰] محقق شہیر شیخ الشریف حاتم بن عارف العونی فرماتے ہیں: اس حدیث میں اضطراب ہے جسے امام دارقطنی رحمہ اللہ نے العلل اور النزول