کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 526
متعدد پہلوؤں سے بیان کرتا ہے۔ جیسا کہ اس نے حضرت ابوثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث کو بھی متعدد انداز سے بیان کیا ہے۔ جس کی ضروری تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔
علامہ عبدالقادر حبیب اللہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الاحوص بن حکیم کو متابعت اور شواہد میں پیش نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ اسے بطورِ حجت پیش کیا جائے۔ لہٰذا اس کی اس (فضیلت پندرھویں شب والی) حدیث اور دیگر احادیث کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔‘‘ (التصوف، ۱/ ۵۵۸)
تیسری علت: حجاج کی مرسل روایت:
پھر اسی روایت کو الاحوص بن حکیم کے علاوہ الحجاج بن أرطاۃ، مکحول عن کثیر بن مرۃ الحضرمی مرسلاً روایت کرتے ہیں۔ مصنف ابن أبي شیبۃ (ج:۶، ص:۱۰۸، حدیث: ۲۹۸۵۹) شعب الإیمان (ج:۳، ص:۳۸۱، حدیث: ۳۸۳۱) فضائل الأوقات کلاہما للبیہقی (ص:۱۲۲، حدیث: ۲۳، وقال: ہذا مرسل جید) وعلل الدار قطنی (ج:۶، ص:۵۱، ج:۱۴، ص: ۲۱۸)
اس سند میں پہلی علت حجاج اور مکحول کے مابین انقطاع ہے، حجاج بن ارطاۃ صدوق کثیر الخطأ والتدلیس ہیں۔ (التقریب: ۱۲۳۹) اور یہ روایت انہوں نے مکحول سے سنی نہیں۔ اگرچہ امام ابوداود رحمہ اللہ نے حجاج کے سماع کا اثبات کیا ہے۔ [جامع التحصیل للعلائی، ص: ۱۹۲]، مگر امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ نے اس کا انکار کیا ہے۔ [المراسیل لابن أبي حاتم، ص: ۴۷، رقم: ۱۶۴۔ وجامع التحصیل للعلائی، ص: ۱۹۲] حافظ عجلی رحمہ اللہ نے اس کے عدمِ سماع کے ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ وہ مکحول سے ارسال کرتے ہیں۔ [معرفۃ الثقات والضعفاء للعجلی، ج:۱، ص:۲۸۴ وتاریخ الثقات للعجلی، ص: ۱۰۷، رقم: ۲۵۱] گویا حجاج اور