کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 525
الحدیث‘‘ کی جرح کرتے ہیں۔ (الجرح والتعدیل، ج:۲، ص:۳۲۸) حافظ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یروي المناکیر عن المشاہیر ترکہ یحی القطان وغیرہ‘‘(المجروحین لابن حبان، ج:۱، ص:۱۷۵) یعنی ’’مشہور راویوں سے منکر احادیث بیان کرتا ہے۔ امام یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ وغیرہ نے اسے ترک کردیا تھا۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لا یروی حدیثہ یرفع الأحادیث إلی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ اس کی احادیث بیان نہ کی جائیں کیونکہ وہ غلطی سے مرفوع احادیث بیان کرتا تھا۔ [الجرح والتعدیل، ج:۲، ص:۳۲۸] دوسری جگہ فرمایا: ’’ضعیف لا یسوی حدیثہ شیئاً، وقال: کان عندی شيئٌ فخرقتہ۔‘‘ [بحر الدم لابن عبد الہادی، ص:۶۱، رقم:۵۱] اس لیے ایسے راوی کو بطورِ متابع اور بطورِ شاہد پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ حافظ ابن عدی رحمہ اللہ اس کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وہو ممن یکتب حدیثہ، ولیس لہ فیما یرویہ متن منکر إلا أنہ یأتی بأسانید لا یتابع علیہا۔‘‘ اس کی احادیث لکھی جائیں گی۔ اس کی مرویات میں کوئی منکر حدیث نہیں، ہاں وہ ایسی سندیں بیان کرتا ہے جن میں اس کی کوئی متابعت نہیں کرتا۔ [الکامل لابن عدی، ج:۱، ص:۴۰۶] گویا وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سندوں میں تفردات کا شکار رہتا ہے اور اسے