کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 51
منقح کیا۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی مختلف کتب سے بھرپور استفادہ کیا۔ اس میں ایسے ایسے نادر علمی نکات ذکر کیے جو کسی اور مصطلح کی کتب میں یکجا طور پر موجود نہ تھے، وہ وقتاً فوقتاً بذریعہ املا اس میں اضافے کرتے رہے۔ بایں وجہ اس کی مناسب ترتیب قائم نہ ہوسکی۔ محدثین اور اہلِ اصطلاح اس کتاب کی طرف مائل ہوئے۔ بعض نے اس کی شروحات لکھیں، بعض نے نکات اور بعض نے مختصرات اور بعض نے منظومات لکھیں۔ جن کا ذکر ہی ایک علاحدہ مضمون کا متقاضی ہے۔ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کے بعد متعدد بیسیوں کتب تصانیف کی گئیں، جن میں درج ذیل نہایت معروف ہوئیں: 1 الاقتراح في بیان الاصطلاح، وما أضیف إلی ذلک من الأحادیث المعدودۃ في الصحاح، للإمام أبي الفتح محمد بن علی ابن دقیق العید (۷۰۲ھـ) 2 الموقظۃ في علم مصطلح الحدیث للإمام الذھبي (۷۴۸ھـ) اس کتاب کی دو شروحات نہایت معروف ہیں: ’’کفایۃ الحفظۃ للشیخ سلیم الہلالی‘‘، ’’شرح الموقظۃ للشیخ الشریف حاتم بن عارف العونی۔ 3 تنقیح الأنظار لابن الوزیر (۸۴۰ھـ) اس کی شرح ’’توضیح الأفکار‘‘ للأمیر الصنعاني (۱۱۸۲ھـ) نہایت معتبر ہے۔ 4 حافظ عراقی ۸۰۶ھ نے ’’ألفیۃ الحدیث‘‘ لکھی۔ پھر اس کی خود ہی شرح ’’التبصرۃ والتذکرۃ‘‘ کے نام سے لکھی۔ پھر اس کی متعدد شروحات لکھی گئیں، جن میں ’’النکت الوفیۃ‘‘ للبقاعي (۸۸۵ھ) اور ’’فتح