کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 497
تیسرا قرینہ: ضعیف راوی کی چند ضعیف احادیث کی نشاندہی: المستدرک میں بہت سارے مقامات پر ضعیف راوی ہیں اس کے باوجود صاحبِ کتاب اس سند یا اسانید کی تصحیح کرتے ہیں اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ مگر دوسری جگہ اسی سند سے حافظ ذہبی رحمہ اللہ بدونِ تعاقب گزر جاتے ہیں۔ بادیٔ النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے امام حاکم رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے سہل بن عمار العتکی کی سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ’’مابعث رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم زید بن حارثۃ…‘‘ ذکر کر کے فرمایا: ’’صحیح الإسناد ولم یخرجاہ‘‘ حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کے تعاقب میں فرماتے ہیں: ’’صحیح، قلت، سھل قال الحاکم في تاریخہ: کذاب وھنا یصحح لہ، فأین الدین!‘‘ (المستدرک: ۳/ ۲۱۵) ’’صحیح حدیث ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں: حاکم رحمہ اللہ نے التاریخ میں سہل کو کذاب قرار دیا ہے اور یہاں اس کی حدیث کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔ کیا یہی دین ہے؟‘‘ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعد بارھویں حدیث جبکہ تلخیص المستدرک کے مطابق نویں حدیث اسی راوی سے بیان کی اور فرمایا: ’’صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ‘‘ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص میں ’’(م)‘‘ کی علامت ذکر دی۔ (المستدرک: ۳/ ۲۱۹) گویا انھوں نے اس چوتھے صفحے پر امام حاکم رحمہ اللہ کا تعاقب نہیں کیا اور یہ