کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 496
’’وقد ألف الذھبي کتابہ ہذا بعد کتابہ العظیم (تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام)‘‘(مقدمۃ تحقیق سیر أعلام: ۱/ ۹۲)
اس پر مستزادیہ کہ النبلاء میں تاریخ الاسلام کے حوالے موجود ہیں: النبلاء: (۳/ ۳۸۰، ۴/ ۱۸۰، ۷/ ۱۸۰، ۴۲۵، ۱۷/ ۵۳۵) لہٰذا ضعیف روایات کا تناسب (۴۲ فیصد) ہی درست معلوم ہوتا ہے۔
دوسرا قرینہ: حافظ ذہبی نے تلخیص کی ہے:
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے تلخیص المستدرک حافظ حاکم رحمہ اللہ پر تعاقب کی غرض سے نہیں لکھی کیونکہ انھوں نے اختصار کیا ہے استدراک نہیں، اور تلخیص میں خشتِ اول عدمِ اضافہ اور خلاصہ پر اکتفا ہوتا ہے۔ اضافہ اختصار کی شرط کے منافی ہو گا گویا نئی کتاب مرتب کر رہا ہے۔
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اگر یہ محض اختصار تھا تو انھوں نے متعدد مواقع پر تعاقب بھی کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ حسبِ ضرورت ملخص کتب میں بعض مقامات پر علمی نکات بھی بیان کرتے ہیں جیسا کہ انھوں نے ’’المھذب في اختصار السنن الکبیر، تلخیص الموضوعات، تلخیص العلل المتناھیۃ‘‘ جیسی کتب میں کیا ہے۔ تلخیص المستدرک کے حوالے سے انھوں نے یہ صراحت کی ہے:
’’ میں نے اس کی تلخیص کی ہے ابھی اس کا بہت سارا کام اور اس کی اصلاح ہونا باقی ہے۔ ‘‘ (سیر أعلام النبلاء: ۱۷/ ۱۷۶)
تاریخ الاسلام میں بھی صراحت کی کہ میں نے اس کتاب کا خلاصہ کیا ہے۔ بلکہ تلخیص المستدرک کی ابتدا میں فرمایا۔ (ھذا مالخص: ۱/ ۲)