کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 495
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
یہاں کوئی معترض یہ دعوی کر سکتا ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے یہ اعداد و شمار تخمین اور ظن پر مبنی ہیں کیونکہ انھوں نے تاریخِ اسلام میں روایات کا جو تناسب ذکر کیا ہے وہ سیر اعلام النبلاء میں مذکور نسبت سے مختلف ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’المستدرک میں بہت ساری روایات شرطِ شیخین پر ہیں اور خاصی احادیث بخاری یا مسلم کی شرط پر ہیں۔ ممکن ہے ان کا مجموعہ نصف کتاب (۵۰ فیصد) کے برابر ہو۔ ایک چوتھائی (۲۵ فیصد) احادیث صحیح سند سے مروی ہیں۔ باقی ایک چوتھائی (۲۵ فیصد) مناکیر، واہیات اور ضعیف روایات ہیں۔ کچھ ان میں موضوع بھی ہیں۔ میں نے تلخیص المستدرک میں ان سے باخبر اور متنبہ کر دیا ہے۔‘‘ (تاریخ الإسلام للذھبي، حوادث و وفیات ۴۰۱۔۴۲۰ھ، ص: ۱۳۲)
یعنی (۲۵ فیصد) احادیث ضعیف اور منکر ہیں۔ اور ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ تلخیص المستدرک میں موجود ایسی نشان زدہ روایات (۱۲ فیصد) سے زیادہ نہیں۔ گویا حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس قول کے مطابق بھی (۱۳ فیصد) احادیث ایسی ہیں جو ان کی نگاہ میں ضعیف تھیں مگر انھوں نے ان کی نشان دہی نہیں کی۔
سیر اعلام النبلاء اور تاریخ الاسلام میں تناسب کا یہ اختلاف حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا اجتہاد متغیر ہونے کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے۔ سیر اعلام النبلاء والا اجتہاد ہی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کا آخری اجتہاد ہے۔ تاریخی اعتبار سے ثابت ہوتا ہے کہ سیر اعلام النبلاء، تاریخ الاسلام کے بعد مرقوم کی گئی۔ معروف محقق دکتور بشارعواد رقمطراز ہیں: