کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 492
حافظ مناوی رحمہ اللہ : علامہ عبدالروف مناوی رحمہ اللہ (۱۰۳۱ھ) نے اس اصطلاح کو استعمال کرنے میں بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور صرف فیض القدیر شرح الجامع الصغیر میں اسے تقریباً سوا چار صد مرتبہ استعمال کیا۔ (فیض القدیر: ۱/ ۴۲۔ ۶۸ ۔۔۔) علامہ عزیزی رحمہ اللہ : علامہ علی بن احمد بن محمد العزیزی رحمہ اللہ (۱۰۷۰ھ) نے السراج المنیر بشرح الجامع الصغیر میں بکثرت اس اصطلاح کا اطلاق کیاہے۔ اور یہ حافظ مناوی رحمہ اللہ کے اسلوب سے متأثر ہونے اور ان کی کتاب فیض القدیر کو پیشِ نظر رکھنے کا نتیجہ ہے: علامہ تھانوی فرماتے ہیں: ’’میں نے عزیزی کا الجامع الصغیر کی شرح میں یہ اسلوب دیکھا کہ وہ حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح پر ذہبی رحمہ اللہ کی موافقت سے بکثرت استدلال کرتے ہیں۔‘‘ (قواعد في علوم الحدیث للتھانوی، ص: ۷۱) بعد ازاں اس اصطلاح کے استعمال میں وسعت پیدا ہو گئی۔ محدثِ مصر شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ اور وحید الدہر علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کا استعمال بکثرت کیا۔ جہاں سے عام علما میں یہ اصطلاح شہرت پا گئی اور اس کے قبول کرنے کا رجحان پیدا ہو گیا۔ مگر یہ موقف درست نہیں۔ ذہبی کا سکوت موافقت نہیں: اس میں دو آرا نہیں کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص المستدرک میں تو کجا کسی اور کتاب میں بھی یہ صراحت نہیں کی کہ تلخیص میں میرا سکوت یا عدمِ تعاقب موافقت کی دلیل ہو گا۔ اگر وہ صراحت کر دیتے تو یقینا یہ معما بھی حل ہو جاتا اور