کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 491
6۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں:
’’وأخرج لہ۔ أبي سباع۔ الحاکم في أوائل البیوع حدیثاً ولم یتعقبہ الذھبي في تلخیصہ‘‘
(لسان المیزان: ۷/ ۵۰، وتعجیل المنفعۃ لابن حجر: ۲/ ۴۶۳، ۴۶۴، ترجمہ: ۱۲۷۷، ملاحظہ ہو؛ المستدرک: ۲/ ۹، ۱۰)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے پہلی مثال میں موافقت کا اثبات کیا۔ جو بلاشبہ درست ہے۔ دوسری اور تیسری مثال میں سکوت کو جبکہ آخری تین مثالوں میں ’’لم یتعقبہ الذھبي‘‘ کو موافقت سے تعبیر کیا ہے۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ :
حافظ سیوطی رحمہ اللہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ان الفاظ کو قاعدے کی شکل میں پیش کیا۔ چنانچہ وہ رقمطراز ہیں:
’’حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے المستدرک پر توجہ دیتے ہوئے اسے مختصر کیا، اس کی اسانید کو تعلیقاً بیان کیا اور ان احادیث میں موافقت کی جن میں کلام نہ تھا ۔جو کمزور تھیں ان کا تعاقب کیا۔‘‘ (مقدمۃ النکت البدیعات، ص: ۲۹)
اسی قانون کو علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے عملی لبادہ بھی اوڑھایا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’وأخرجہ الحاکم في المستدرک… وقال: صحیح وأقرہ الذھبی فلم یتعقبہ‘‘ (اللآلی المصنوعۃ للسیوطي: ۲/ ۲۱۵)
بلاشبہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کا کوئی تعاقب نہیں کیا۔ (المستدرک: ۴/۱۲۲)
گویا اس قاعدے کی داغ بیل ڈالنے والے اور ایک اصول کی حیثیت سے متعارف کرانے والے حافظ سیوطی رحمہ اللہ ہیں۔ اسے بکثرت استعمال کرنے والے حافظ مناوی رحمہ اللہ ہیں۔